انسانی زندگی اور یہ کائنات دو طرح کے ادوار سے گزرتی ہے ایک دور الم، غم، دکھ اور تکلیف اور دوسرا دور مسرت، خوشی اطمینان اور سکون۔ تیسرا کوئی دور نہیں ہوتا۔ یہ دونوں دور ہر شخص پر، ہر امت پر آتے ہیں۔ کائنات کا نظام اور اللہ کی سنت اس پر قائم ہے لیکن ساتھ ہی انسان کو اختیار بھی دیا گیا۔ انسان اس کائنات میں مجبور محض نہیں ہے۔ ہمیں سوچنے کی کچھ کرنے کی صلاحیت اور اس کا اختیار دیا گیا ہے۔ اسی کو آزمائش قرار دیکر سزا اور جزا کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ انسان اگر ڈھنگ اور سلیقے سے کام کرے تو عہد مسرت کا دورانیہ بڑھ سکتا ہے اور عہد الم کا کم ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ دونوں ادوار لازماً آئیں گے کیونکہ مدوجزر اس سے وابستہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں ’’تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ یہ ایام انسانوں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں۔ دور الم میں ہمیں اپنی قوتوں کو محفوظ کر کے رکھنا چاہیے، انہیں ضائع ہونے سے بچائیں، اس کا نام صبر ہے۔ ٹیسٹ میچ میں بیٹسمین کبھی دو دن تک کھڑا رہتا ہے لیکن اصل میں وہ اپنی وکٹ محفوظ رکھتے ہوئے اس وقت کا انتظار کرتا ہے جب بولر کوئی غلطی کرے، تنگ آکر نوبال اور کوئی کمزور بال پھینکے۔ اسی طرح بولر بیٹسمین کی غلطی کا انتظار کرتا کہ وہ کب غلطی کرے اور وہ اسے آئوٹ کرے۔ امتحان دونوں کے صبر کا ہوتا تھا۔ دور الم اسی صبرکا نام ہے۔ صبر کے ساتھ اپنے وسائل مجتمع رکھ کے وقت کا انتظار۔
عہد نبوی میں ایک سریہ میں صحابہ کرام کے لشکر پر دشمن غالب آگیا۔ سیدنا خالد بن ولید بڑی ذہانت اور مہارت سے مسلمانوں کو بچاکر مدینہ لے آئے لیکن جو ہدف تھا وہ حاصل نہیں ہوا۔ چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ یہ بھاگ کر آئے ہیں۔ رسالت مآبؐ نے سیدنا خالد بن ولید سے کچھ نہیں پوچھا کہ کیا ہوا بلکہ فرمایا: ’’یہ بھاگ کر نہیں آئے ہیں۔ یہ تو اس لیے آئے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کو روک کر جمع کریں، مزید تیاری کریں اور پھر لوٹ کر دشمن پر حملہ آور ہوں‘‘۔ دیکھیے عالی مرتبتؐ کس طرح اپنے اصحاب کا حوصلہ بلند رکھتے تھے۔ دور الم کے لیے آپؐ نے ہمیں جو پہلی ہدایت ارشاد فرمائی ہے وہ ہے صبر۔ اپنی ٹانگیں توڑکر ہمتیں پست کرکے، احساس کمتری کے آخری درجے میں جائے بغیر آنے والے حالات کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا اور مناسب وقت پر مناسب اقدام کرتے رہنا یہ اصل میں صبر ہے۔ دوسری جو اہم ترین چیز دور الم میں ضروری ہے وہ اپنے آپ کو مایوسی سے بچانا ہے۔ مایوسی کے گڑھے میں گرنے سے بچنا یہ دورالم کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ یہ گزرجانے والا وقت ہے۔ اس نے لازماً گزر جانا ہے کیونکہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ دور الم کے بعد دور مسرت ضرور آئے گا۔
رسول اکرمؐ کے آخری ایام میں، فتح مکہ کے موقع پر قرآن حکیم کی ایک چھوٹی سی صورت دور مسرت کی وضاحت کرتی ہے ’’اذا جاء نصراللہ والفتح۔۔۔ انہ کان توابا‘‘ عہد مسرت کی علامت ہے کہ لوگ جڑتے ہیں، رغبت کرتے ہیں رجوع کرتے ہیں۔ لیکن ذمے داری کیا ہے اس وقت آپ نے ناچنا کودنا نہیں ہے۔ ان مسرتوں میں اپنے آپ کو بھول جانا نہیں ہے بلکہ اللہ کی رحمت سے اپنے آپ کو مزید وابستہ کرنا ہے، استغفار کرنا ہے۔ حالانکہ رسول اللہؐ کے بارے میں ایک دوسرے مقام پر اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے کہ ’’آپؐ کے سارے گناہ معاف کردیے گئے۔ آپ بے گناہ ہیں، معصوم ہیں‘‘ تو پھر کیوں کہا جارہا ہے کہ آپ استغفار کریں۔ اس لیے کہ استغفار کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ میں اللہ سے معافی مانگ رہا ہوں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میرے اوپر بھی کوئی ہے۔ انسان طاقت کے عالم میں سب سے زیادہ نقصان اس نکتے سے اٹھاتا ہے کہ ہم فاتح ہیں۔ ہمارے اوپرکوئی نہیں ہے۔ عہد مسرت میں اللہ کے دربار سے وابستگی اور زیادہ مضبوط ہونی چاہیے۔ یہ وابستگی جب کمزور پڑتی ہے تو سمجھ لیجیے کہ دور الم آغاز ہوگیا ہے۔ عہد مسرت کو مختصر کرنے والی چیز یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے رسولؐ کے ساتھ ہماری وابستگی کمزور ہو۔
بطور امت اس وقت ہم دور الم میں ہیں۔ اس میں ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں۔ سب سے پہلے اس تصورکو جو ٹوٹ رہا ہے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے امت کے اس تصور کو تازہ کیا جائے زندہ کیا جائے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ہم یہاں بیٹھ کر فلسطین اور اہل فلسطین کے لیے کچھ نہیں کرسکتے لیکن کیا نئی نسل کو اس اس مسئلے کی حساسیت سے اس کی گہرائی سے اس کی وسعت سے آگاہ بھی نہیں کرسکتے۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو یہ نہیں بتاسکتے 80برس سے زائد ہونے کو آرہے ہیں قائداعظم نے اس وقت کہا تھا ’’یہ ہمارے بنیادی عقیدے کا مسئلہ ہے‘‘۔ اس وقت پوری دنیا میں صرف دو نظریاتی ریاستیں ہیں۔ 60مسلم ممالک میں کوئی ملک نہیں ہے جو نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا ہو سوائے مملکت اسلامیہ پاکستان کے۔ نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ وہ بھی ایک نظریہ پر قائم ہوا تھا ہم بھی ایک نظریہ پر قائم ہوئے تھے۔ اس لیے ہمارے درمیان نظریاتی جنگ ہے۔
اس وقت ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو متحد رکھیں۔ دنیا میں چاہے ہمارا درد محسوس کیا جائے یا نہ کیا جائے ہم امت کا درد ضرور محسوس کریں گے۔ یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ فلاں وقت پر فلاں مسلم ملک کا ہمارے ساتھ غلط رویہ تھا۔ ان کا رویہ غلط تھا ان کو اصلاح کی ضرورت ہوگی لیکن ہمارا رویہ کسی کے تبادلے میں نہیں ہے۔ کسی کے ردعمل میں نہیں ہے۔ اس بنیاد پر نہیں ہے کہ کون ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور کون برا۔ یہ سماجیات میں ضرور ہوتا ہوگا لیکن نظریات میں نہیں۔ نظریات اٹل ہوتے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کررہا ہو۔ ہمارا وہی موقف ہونا چاہیے جس میں کسی بھی طرح کے ردعمل کا شائبہ بھی نہ ہو۔
یہ امت مسلمہ کا معاملہ ہے۔ ہمارا ان سے خون سے بڑا رشتہ ہے۔ مواخات مدینہ میں انصار کے بے پناہ ایثار اور مہاجرین مکہ پر اپنا سب کچھ تقسیم کردینے کے بے مثل جذبہ اخوت کے جواب میں مہاجرین نے کیا کہا تھا کہ ہمیں کچھ بھی نہیں چاہیے۔ وہ اصل میں مورل سپورٹ تھی۔ ان کے جذبوں کو پست ہونے سے یا کسی بھی وجہ سے، حالات کے جبر سے ہمتیں ٹوٹنے سے بچانا مقصود تھا۔ ان کو یہ ہمت دینا مقصود تھا کہ تم تنہا نہیں ہو۔ جب یہ مواخات ہمارے خون کا حصہ ہے خمیر کا حصہ ہے تو پھر ہمیں کسی بھی ردعمل کا شکار نہیں ہونا چاہیے اس ذمے داری کو پورا کرنا ہمارا شرعی تقاضا ہے۔ یہ ہمارے دین کی پکار ہے جس کلمے کے ہم پڑھنے اور ماننے والے ہیں جو ہمارے دین اور عقیدے کی بنیاد ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم ان ذمے داریوں کو پورا کریں۔