مولانا فضل الرحمن سے فضل و کرم کے طلب گار دونوں بڑے یعنی نواز شریف اور آصف علی ہیں اور مولانا فضل الرحمن مانگ میں سندور بھرنے کا تقاضا کررہے ہیں۔ کے پی کے میں مولانا کی دعا کے طلب گار حصہ پانے کے لیے اے این پی، قومی وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی بولی لگا رہی ہیں اور مولانا فضل الرحمن فرما رہے ہیں کہ ملکی سیاست پر عالمی اداروں کا قبضہ ہے اور ہماری آزادی دائو پر لگی ہوئی ہے اور ہماری سیاست و معیشت دبائو میں ہے۔ عالمی اداروں اور معاہدوں سے ہمیں غلام بنایا ہوا ہے، مولانا فضل الرحمن کا یہ فرمان انتخابی سیزن میں جبکہ ان کی جان کو خطرہ بتایا گیا ہے معنیٰ خیز ہے وہ کسی اقتدار کی این آر او جو عالمی طاقتوں نے کرایا تھا اور اقتدار پندرہ سالہ پٹے پر دیا گیا تھا اس میں مولانا فضل الرحمن کو فارغ اقتدار کردیا گیا تھا کہ دوبارہ اعادہ سے متوش ہیں کہ سیاست اور معیشت کے بحرانی دور میں پھر دو پاٹوں میں وہ پر رگڑے نہ جائیں۔
جماعت اسلامی جو اتحاد کی سیاست کو خوب بھگت چکی ہے اب اس نے اس سنہری جال کو تار تار کرتے ہوئے دونوں اقتداری پارٹیوں پی پی پی اور نواز لیگ سے اتحاد نہ کرنے کا اعلان کرکے ترازو میدان سیاست میں لاکھڑا کیا کہ جو ترازو پر پورا اترے گا اس سے ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔ بس بہت ہوگئی اتحاد کی سیاست ہم باز آئے دل فریب منافقت کے اس جھانسے سے۔
اب انتخابی مطلع ضرور صاف ہوا ہے مگر خدشات التوا انتخاب ہرگز کم نہ ہوئے ہیں دل مطمئن نہیں ہورہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے کا طوفان سیاسی ذہنوں میں امڈا ہوا ہے۔ مطلع صاف ہوا تو چشم کشا صورت حال سے بھگدڑ مچ گئی۔ پی پی پی کے برسوں سے رفیق سینئر وکیل لطیف کھوسہ نے جانا کہ مستقبل تحریک انصاف کا ہے، وہ پی پی پی چھوڑ کر اپنے ساتھ انصاف کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور یوں ہی معروف عالم دین حامد سعید کاظمی جو سابق وفاقی وزیر بھی ہیں آصف علی زرداری کی اسلامی ضرورت دیکھ کر پی پی پی میں شامل ہوگئے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ پی پی پی کو کوئی کوثر نیازی نہ مل جائے اور یوں وہ محروم نہ رہ جائیں۔ سیاسی کھچڑی پک رہی ہے، مصنوعی بارش پنجاب کا جو اسموگ سے نجات کا تجربہ حال ہی میں ہوا وہ ناکام ٹھیرا ائرکوالٹی انڈیکس کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا، اور یہ مصنوعی تجربہ جو ناکام ٹھیرا انتخاب میں مصنوعی ووٹوں کی برسات کی صورت پر بھی ناکام تو نہیں ہوجائے گا اور سب کییکرائے پر ہاتھ تو نہ پھر جائے گا۔