بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کو گزرے اب ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ وہ قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی ہم سے جدا ہوگئے، تاہم ہمارے پاس پاکستان کی صورت ان کی نشانی موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ کاش کہ ہم اس نشانی کا اسی طرح خیال رکھیں جس طرح قائدِاعظم چاہتے تھے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں قائدِاعظم جیسا پُرعزم اور پُرحوصلہ قائد نصیب ہوا جس کی دُور اندیشی اور مسلسل کوشش کے نتیجے میں ہی مسلمانانِ ہند کو ایک آزاد مملکت حاصل ہوئی۔
انیس سو چالیس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں ایک علیحدہ مملکت کی قرارداد پیش کرنے کے بعد سے ہی قائدِاعظم پر دو قومی نظریے کے پرچار کے حوالے سے سخت تنقید کی گئی۔ یہ تنقید صرف مہاتما گاندھی جیسے مخالفین نے ہی نہیں کی بلکہ مسلم رہنما بھی اس میں شامل رہے۔
آج کے دور میں جس طرح بھارت کی انتہا پسند حکومت مسلمانوں پر زندگی تنگ کررہی ہے اسے دیکھتے ہوئے نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ شعور رکھنے والے ہندو بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ قائدِاعظم دو قومی نظریے کا پرچار کرنے اور ایک علیحدہ مملکت کے حصول کی کوششوں میں حق بجانب تھے۔
میں کوئی تاریخ دان یا سیاستدان نہیں ہوں لیکن پھر بھی قائدِاعظم کی زندگی اور ان کی کامیابیاں میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اس کی 2 وجوہات ہیں، پہلی وجہ یہ کہ میں نے تقسیم ہند سے قبل اپنے بچپن میں قائدِاعظم کو دیکھا ہے اور دوسری وجہ یہ کہ میں تقسیم کے وقت ہجرت کی سختیوں اور تمام مشکلات کا عینی شاہد بھی رہا ہوں۔
قائدِاعظم محمد علی جناح کا خاندان بھی متوسط درجے کا ہی تھا۔ ان کے والد جناح بھائی پونجا اور والدہ مٹی بائی گجرات کے گاؤں پانیلی موتی میں رہتے تھے۔ وہ 1875ء میں ہجرت کرکے کراچی آگئے جہاں 1876ء میں قائدِاعظم کی پیدائش ہوئی۔
قائدِاعظم نے ابتدائی طور پر سندھ مدرسۃ الاسلام میں پڑھا اور پھر کرسچن مشنری سوسائٹی اسکول سے بمبئی یونیورسٹی اگزیمینیشن کے تحت میٹرک کیا۔ اس کے بعد وہ 1893ء میں برطانیہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے لندن میں اپنے والد کے دوست سر فریڈرک لی کرافٹ کی تجارتی کمپنی میں نوکری کی۔
انیس سو چوون میں قائدِاعظم کی سوانح حیات لکھنے والے ہیکٹر بولیتھو نے اس سوانح حیات میں قائدِاعظم کے برطانیہ جانے سے قبل کا ایک واقعہ شامل کیا ہے۔ اس کتاب کے مطابق ’قائدِاعظم نے کھارادر میں اپنے محلے کے بچوں کو کنچے کھیلتے دیکھا تو ان سے کہا کہ وہ کنچے نہ کھیلیں، اس سے ان کے ہاتھ اور کپڑے گندے ہوتے ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے ان بچوں کو کرکٹ کھیلنے کا مشورہ دیا اور کرکٹ سکھائی بھی۔ پھر جب قائدِاعظم برطانیہ جانے لگے تو انہوں نے اپنی کرکٹ کِٹ انہی بچوں کے حوالے کردی‘۔
بعد کی زندگی میں بلیئرڈز ان کا پسندیدہ کھیل بن گیا تھا۔ کرکٹ کے حوالے سے میں نے ان کی ایک تصویر دیکھی ہے جو لاہور جیم خانہ میوزیم میں موجود ہے۔ اس تصویر میں قائدِاعظم کرکٹر نذر محمد کو ٹرافی دے رہے ہیں۔ بعد ازاں نذر محمد پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں سنچری بنانے والے پہلے کھلاڑی بنے۔
لندن میں رہتے ہوئے قائدِاعظم محمد علی جناح نے اپنے والد کی خواہش کے برخلاف قانون کی تعلیم حاصل کرنے اور بیرسٹر بننے کے لیے لکنز اِن میں داخلہ لیا۔ ان دنوں میٹرک کی تعلیم کے بعد بھی قانون کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا جاسکتا تھا۔
ہیکٹر بولیتھو کے مطابق ’یہیں 1894ء میں قائدِاعظم نے جناح بھائی سے مسٹر جناح کا نام اور مغربی لباس اختیار کیا اور پہلا مونوکل خریدا‘۔
قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا ان کا عزم ہی تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے صرف 2 سال میں 19 سال کی عمر میں ہی بیرسٹر کی تعلیم مکمل کرلی۔ اس دوران وہ لندن میں 35 رسل روڈ میں رہائش پذیر تھے۔ اتفاق دیکھے کہ لندن میں قیام کے دوران جس جگہ میں رہائش پذیر تھا وہ وہاں سے 4 گلیوں کے فاصلے پر تھی۔
قائدِاعظم لندن میں تعلیم حاصل کرکے واپس آئے تو ان کی اہلیہ ایمی بائی اور والدہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس دوران ان کے والد بھی تنگ دستی کا شکار تھے۔ اس حوالے سے ہیکٹر بولیتھو اپنی کتاب میں قائدِاعظم کی ایک رشتے دار کا بیان نقل کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’اس دوران قائدِاعظم انہی کے ساتھ رہتے تھے۔ 2 کمروں کے مکان میں وہ 8 افراد رہائش پذیر تھے۔ رات کے وقت قائدِاعظم مطالعہ کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت گھر میں بچے سورہے ہوتے تھے۔ یوں وہ مطالعے کے لیے جب لالٹین جلاتے تو اس کے پیچے کارڈ بورڈ کی ایک شیٹ رکھ دیتے تاکہ کمرے میں سوئے بچوں کی نیند لالٹین کی روشنی سے خراب نہ ہو‘۔
بعدازاں قائدِاعظم قانون کی پریکٹس کرنے کے لیے بمبئی چلے گئے۔ وہاں وہ ایک کامیاب وکیل بن کر ابھرے۔ قائدِاعظم نے پھر 18 سالہ رتن بائی سے شادی کی جو بعد میں رتی جناح کے نام سے جانی گئیں۔
قائدِاعظم اپنی ذہانت اور حاظر جوابی کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ بمبئی ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے دوران جج نے قائدِاعظم سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’مسٹر جناح یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ کسی تیسرے درجے کے مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہیں‘۔ قائدِاعظم نے جواباً کہا کہ ’مائی لارڈ مجھے بھی یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ آپ بھی کسی تیسرے درجے کے وکیل سے مخاطب نہیں ہیں‘۔
ایک اور موقع پر کسی مقدمے کی سماعت کے دوران جج نے قائدِاعظم کو مخاطب کرکے کہا کہ ’مسٹر جناح اپنی آواز نیچی رکھیں، آپ کو کم از کم میرے سفید بالوں کا تو احترام کرنا چاہیے‘۔ اس پر قائدِاعظم نے جواب دیا کہ ’مائی لارڈ! میں اس چیز کی عزت کرتا ہوں جو ان بالوں کے نیچے ہے اور وہ آپ کا دماغ ہے‘۔