طالبان کے بارے میں مختلف خیال اور رائے پائی جاتی ہے جو زمینی حقائق کے برعکس ہے کیونکہ طالبان اْن طالب ِ علموں کو کہا جاتا تھا جو مساجد میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور مظلوموں کی مدد کرنا اپنا اوّلین فرض سمجھتے تھے۔ جب دو قبائل دست و گریباں ہوتے تو علاقے کی مسجد کا امام دونوں قبائل کو سرخ اور سفید جھنڈے بھیجا کرتے تھے جس قبیلے کا سردار سفید جھنڈے کو پسند کرتا طالبان اْس کی مدد کرتے تھے اور جنگجوئی پر آمادہ قبیلے سے لڑتے تھے۔ شکست کے بعد قبیلے کا خود سرکش سردار سرنگوں ہوکر معافی مانگتا اور امام مسجد دونوں قبائل کے سرداروں سے جنگ نہ کرنے کا عہد لیتا تھا۔ مساجد سے حصول تعلیم کے بعد طالبان اعلیٰ تعلیم کے لیے افغانستا ن اور ہندوستان وغیرہ کے معروف درسگاہوں کا رْخ کرتے تھے ریاست رام پور کا مدرسہ عالیہ صرف نحو کے معاملے میں بہت مشہور تھا جو طالب ِ علم صرف نحو کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے داخلہ لینے کے لیے رام پور کا رْخ کیا کرتے تھے۔
مساجد کی اہمیت کے پیش ِ نظر مولانا عبدالستار ایدھی نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ عدالتوں کو مقدمات کے انبار سے نجات دلانے کے لیے چھوٹے موٹے جھگڑوں اور چوری چکاری کے واقعات کے فیصلے علاقہ کے امام مسجد کے حوالے کر دیے جائیں تو فیصلہ بروقت ہوسکتا ہے اور انصاف بھی فوری طور پر ہوسکتا ہے۔ اْنہوں نے یہ تجویز پیش بھی کی تھی کہ پولیس اہلکاروں کو اْن کے رہائشی علاقوں میں تعینات کیا جائے تو پولیس کی چیرا دستیوں سے عوام کو نجات دلائی جاسکتی ہے کیونکہ وہ اپنے علاقے کے ہرفرد سے واقف ہوتے ہیں پنجاب سے دوسرے صوبوں میں جانے والے پولیس اہلکار اپنے فرائض میں کوتاہی کرتے رہتے ہیں کیونکہ سبکدوش ہونے کے بعد وہ اپنے علاقوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ اگر مولانا عبدالستار ایدھی کی تجاویز پر عمل کیا جاتا تو عوام کو پولیس کی خودسری سے نجات مل جاتی مگر المیہ یہ ہی ہے کہ مقتدر طبقات مساجد سے الرجک ہیں اگر اس الرجک کا علاج کر دیا جائے تو اسلامی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے اور جب معاشرہ اسلامی معاشرہ بن جائے گا تو اسلام کا نفاذ یقینی ہو جائے گا۔
یہ کون ہیں جو ببولوں سے چھاؤں مانگتے ہیں
ادھر جو ایک شجر ہے وہیں نہیں جاتے