پاکستان کی معیشت انتہائی تنزلی کی جانب گامزن ہے، برآمدات میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے، پیداواری شعبہ منفی سمت میں رواں دواں ہے اور لوگ پانی، بجلی، گیس اور روٹی کے لیے چیخ و پکارکررہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے حکمران قوم کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھانے کے ساتھ ساتھ یہ دعوے بھی کرتے رہے ہیں کہ ملک میں غربت میں کمی ہو رہی ہے۔ موجودہ معیشت کی بے مثال کامیابی کے ترانے گائے جا رہے ہیں حکومتی سطح پر سازو آواز کے ساتھ اور عوامی سطح پر الخاموشی نیم رضا کے اظہار کے طور پر اب ان خاموش ترانوں میں کتنے حکومت کے دعوئوں سے متفق ہیں کتنے نہیں اللہ بہتر جانتا ہے۔ ملکی معیشت کو مہنگائی، بیرونی مالی دباؤ اور غیریقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ موجودہ مالی سال معاشی شرح نمو ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے۔ پاکستان میں بجلی کا موجودہ بل 55 سے 70 روپے فی یونٹ تک پہنچ گیا ہے جبکہ چین میں بائیس روپے، ہندوستان میں تیرہ روپے، ایران میں ساڑھے نو روپے اور افغانستان میں آٹھ روپے فی یونٹ ہے۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم از کم تین سو یونٹ خرچ کرنے والے غریب عوام سے، جن کی اوسط تنخواہ پچیس ہزار سے چالیس ہزار تک ہے، حکومتی ٹیکس اور دوسری ڈیوٹیز ختم کر کے قسطوں میں وصولی کی جاتی حالانکہ یہ بھی کوئی دیرپا حل نہیں ہے لیکن اس سے کم از کم عوام میں شدید بے چینی کی صورتحال کوکچھ قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی اشرافیہ اور حکمراں طبقہ کو پانچ ہزار ارب روپے سے زائد سالانہ سبسڈی دی جاتی ہے۔
موجودہ معاشی بحران کی اصل وجہ دراصل ریاست کے وہ اقدامات ہیں جس نے آئی ایم ایف سے معاہدوں کا بوجھ ریاستی اداروں پر ڈالنے کے بجائے عوام پر ڈال دیا۔ آج عوام کی ریاست سے بیگانگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور اگر فوری طور پربیوروکریٹس، ججوں، پارلیمنٹیرینز، عسکری اداروں کو دی جانے والی تمام سہولتیں جن میں بجلی، گیس، پٹرول، سرکاری گاڑیوں کی فراہمی شامل ہے، واپس نہ لی گئیں تو حالات قابو سے باہر بھی ہوسکتے ہیں جس کی تمام تر ذمے داری حکمراں طبقے پر عائد ہوگی جن کی سیاست کا محور عوام کی خوشحالی نہیں ہے۔ آئی پی پیز سے اندھے معاہدے، بجلی کی چوری اور بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی قیمت بھی عوام کو بجلی کے بلوں کے ذریعے بھگتنا پڑتی ہے جو کہ دراصل حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں عوام سے صرف بجلی کی اصل قیمت وصول کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں بجلی کے بل کا ایک تہائی حصہ ٹیکس اور دوسرے حکومتی چارجز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بجلی کی قیمت قابل برداشت بنائی جاتی اور توانائی کے متبادل ذرائع یعنی ہوا اور سولر کے ذریعے سستی بجلی پیدا کی جاتی لیکن حکمرانوں نے مہنگے درآمدی فرنس آئل اور ایل این جی پر انحصار کیا، یوں ہمارا تجارتی خسارہ تقریباً اٹھائیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کم ترین سطح پر آگیا۔ آج پاکستان سولر کے ذریعے صرف ایک اعشاریہ چار فی صد اور ہوا کے ذریعے صرف چار اعشاریہ آٹھ فی صد بجلی پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہوا کے قدرتی کوریڈورز موجود ہیں جہاں سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور ایسی بجلی کی پیداوار ماحولیاتی حوالے سے بھی بہت سود مند ہے۔
پاکستان کی 76 سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کی جامع ترقی میں جمود نظر آتا ہے۔ صرف ایوب خان کے دور حکومت کو معاشی استحکام کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کی معیشت کی بنیاد زراعت کی بہتری کے لیے اقدامات کیے گئے۔ پاکستان کی بنجر زمینوں کی آبادکاری کے لیے بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا ہی نہیں بنائے گئے بلکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے نئے بیج اور کھا د وغیرہ کے لیے بھی پلاننگ کی گئی۔ منگلا تر بیلا ڈیموں کی تعمیر کوئی عالمی مالیاتی اداروں کی پاکستان محبت نہ تھی بلکہ پاکستان کے تین مشرقی دریائوں کا 21 ملین ایکڑ فٹ پانی ہڑپنا تھا۔ دونوں بڑے ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کی سبز معیشت کے لیے پانی اور بجلی کی توانائی میسر آئی تو قومی معیشت نے بھر پور انگڑائی لی۔ دنیا کے ماہرین معاشیات پاکستان کو مستقبل کا ایشین ٹائیگر قرار دے رہے تھے۔ تربیلا ڈیم کے مکمل ہوتے ہی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے حکم دیا چنانچہ تربیلا ڈیم سے تعمیراتی مشینری فوری طور پر کالا باغ کے مقام پر پہنچا دی گئی۔ اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر بھی بر وقت ہو جاتی تو پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے سے کوئی نہ روک سکتا تھا۔ کالا باغ ڈیم سمیت تمام آبی وسائل پر گویا خط تنسیخ کھینچ دی گئی۔ تربیلا ڈیم پروجیکٹ میں پانچ سرنگوں (Tunnels) کے ذریعے بجلی پیدا کی جانی تھی مگر صرف پہلی سرنگ پر ایک ہزار میگا واٹ کے جنریٹرز نے کام شروع کیا تھا کہ عالمی بینک کی طرف سے قرض لینے کے شوقین حکام نے فرنس آئل پر چلنے والے 1292 میگاواٹ کے پائور ہاؤس کو بھی شرف قبولیت بخشا۔ اس کے چھے سال بعد تھوک کے حساب سے پرائیویٹ بجلی گھروں نے پہلے واپڈا کو ذبح کیا اور پھر پاکستان کی معیشت کا ہی نہیں عزت وآبرو کا بھی جنازہ نکال دیا۔
پاکستان کی اشرافیہ جس میں رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکون، جاگیردار، بیوروکریٹس، سجادہ نشین، قبائلی سرداراور اسٹاک ایکسچینج کے سیٹھ شامل ہیں، ان تک یا تو ریاست کی پہنچ نہیں ہے یا ریاست ان سے ملی ہوئی ہے۔ سابق چیئر مین ایف بی آر شبر زیدی نے جب رئیل اسٹیٹ اور تاجر طبقے پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ ڈی ایچ ایز میںکاروبار ٹھپ ہو گیا ہے اور ان کی آہ و بکا سن کر عمران خان اور جنرل باجوہ نے شبر زیدی کو ان مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگانے سے منع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح نو فی صد کے قریب ہے اور ہندوستان اور بنگلا دیش میں تقریباً اٹھارہ فی صد ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم پر ایسے برے حالات آئے تو پوری قوم نے مل کر اپنی قربانیوں کے ذریعے ان سے نجات حاصل کی اور سماج کے خوشحال طبقوں اور اداروں نے اپنی مراعات کی قربانی دی۔ اس لیے آج اشد ضرورت ہے کہ تمام غیر پیداواری اخراجات کو ختم کیا جائے۔ گورنمنٹ ملازمین، ججوں، اور عسکری اداروں کے بجلی، پٹرول، گیس، سرکاری گاڑیوں اور دیگر مراعات کو فوری طور پرختم کیا جائے۔ کئی بلین ڈالرز کی درآمدات جس میں بلیوں اور کتوں کی خوراک، شیمپو، پرفیوم، جوتے اور ایسی غیر ضروری اشیائے تعیش جو صرف اشرافیہ کی ضرورت ہیں، کو ختم کیا جائے۔ ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی کنٹونمنٹس کا خاتمہ کیا جائے۔ جائدادوں پر دوسرے ممالک کی طرح مارکیٹ ویلیو کی بنیاد پر ٹیکس نافذ کیا جائے۔ ایران، افغانستان اور ہندوستان سے تعلقات کو خوشگوار بنا کر عسکری بجٹ میں کمی کی جائے۔ فوری طور پر آئین کے مطابق نوے دن کے اندر الیکشن کروائے جائیں۔
آج پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور ذی شعور دانشور آئین کی پاسداری کو پاکستان کی بقا سے جوڑتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی اور سیاسی ابتری کی جڑیں بہت گہری ہیں اور مرہم پٹیوں کے ذریعے ان امراض کا علاج ممکن نہیں۔ اس لیے جب تک پاکستان کو مراعات یافتہ طبقات اور مافیاز کے چنگل سے آزاد کراکے عوامی فلاحی ریاست کا قیام ظہور پزیر نہیں ہوتا، اس وقت تک نناوے فی صد عوام کی معاشی زبوں حالی کے رجحان کو روکنے کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان تمام معاشی مشکلات کے باوجود اگر ہم اپنی تر جیحات کو درست کر لیں اور اپنے وسائل کو خصوصاً سماجی اور سرکاری شعبے میں بہترین طریقے سے استعمال میں لے آئیں تو ہم ایک نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم کردار نجی شعبے کا ہوگا۔ تاریخ گواہی دے گی کہ جب بھی نجی شعبے کو پنپنے کا موقع ملا ہے، اس نے اپنا کردار مثبت اور تعمیری انداز میں ادا کیا ہے۔ تاہم بد عنوانی، مفادات کے ٹکراو، اچھی گورننس، شفافیت اور احتساب کے فقدان کے باعث نجی شعبہ خاطر خواہ کار کردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔