گزشتہ ایک ہفتے میں سیاسی اور قانونی محاذ پر ایسی پیشرفت ہوئی کہ منظر نامہ بدل کر رہ گیا، ملکی سیاست بلے کے نشان کے مستقبل کے گرد گھومنے لگی ہے۔
تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لیے جانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے تحریک انصاف کو’’ بلا‘‘ واپس دینے کا حکم دے دیا، پشاور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا ووٹرز کی حق تلفی ہے، بلے کے نشان کی بحالی نے جہاں تحریک انصاف کی حریف جماعتوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا وہیں سیاسی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ ایسے میں انتخابات کی کیا صورتحال ہو گی؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کو پتھر پر لکیر قرار دیا گیا اور عدالت نے ریٹرننگ افسران کی تقرری سے متعلق کیس میں آبزرویشنز اور فیصلہ دے کر یہ ثابت بھی کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر ہر صورت عملدرآمد کرائے گی، سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ مگر سیاسی میدان میں دو وجوہات کی بنیاد پر یہ دلیل دی جا رہی تھی کہ عام انتخابات ہو کر رہیں گے، میاں نواز شریف کی 21 اکتوبر کو جس انداز میں وطن واپسی ہوئی اور پے در پے ان کے کیسز کا خاتمہ ہوا ‘ اسے واضح اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا کہ نہ صرف انتخابات ہونے جا رہے ہیں بلکہ میاں نواز شریف کو مسندِ اقتدار پر بٹھانے کے لیے راہ بھی ہموار کی جا رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) تو خود یہ تاثر دیتے نہیں تھکتی تھی کہ’ ساڈی گل ہو گئی اے‘ یعنی ہماری بات ہو گئی ہے کہ میاں نواز شریف ہی آئندہ وزیر اعظم ہوں گے، (ن) لیگ کے ساتھ ہونے والے برتاؤ اور ان کے اعتماد کو دیکھ کر دیگر سیاسی جماعتوں نے لیول پلینگ فیلڈ کے سوالات بھی اٹھائے، اس کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر شک و شبہ رکھنے والوں نے اس وقت اپنی سوچ تبدیل کرنا شروع کر دی جب گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ صادر کیا گیا۔
اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہ ہو تو اس کا مطلب اس کا انتخابات سے واضح طور پر باہر ہونا ہے، یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کیلئے ترجیحی فہرست بھی تاحال قبول نہیں کی، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی حریف سیاسی جماعتوں کیلئے میدان خالی ہوگیا، تحریک انصاف پشاور ہائیکورٹ پہنچی اور بڑا ریلیف لے لیا، پی ٹی آئی کے سیاسی حریفوں کا خیال تھا کہ سابق حکمران جماعت کے پاس ایک تو تگڑے امیدوار نہیں ہوں گے اور جو امیدوار میدان میں ہوں گے ان کے پاس انتخابی نشان نہیں ہوگا، یوں انتخابات کے دوران تحریک انصاف ان کیلئے درد سر نہیں بن سکے گی۔
الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد جب کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہوا تو تحریک انصاف کے امیدواروں کی جانب سے شکایات سامنے آنے لگیں کہ ان کے نامزدگی فارم مبینہ طور پر چھینے گئے یا ان کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کی لیول پلینگ فیلڈ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو برابری کا میدان فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
انتظامیہ کی مزاحمت کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں نے ملک بھر کے حلقوں میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور اب نامزد امیدواروں کے پاس انتخابی نشان بلا بھی ہوگا، انتخابی نشان الاٹ کرنے کیلئے انتخابی شیڈول کے مطابق 13 جنوری تک کا وقت ہے جبکہ پشاور ہائیکورٹ میں ڈویژنل بنچ 9 جنوری کو بلے کے انتخابی نشان سے متعلق کیس کی تفصیلی سماعت کرے گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کرنے سے متعلق قانونی ٹیم سے بریفنگ لی اور مشاورت کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کیونکہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا ہے اور کیس پر حتمی فیصلہ نہیں دیا، ایک ایسا کیس جو ابھی ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے اور کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا اسے کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے ؟
دوسری جانب تحریک انصاف کو انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد الیکشن سے آؤٹ کیا گیا، سائفر کے معاملے میں ضمانتوں اور لیول پلینگ فیلڈ سے متعلق دو مختلف درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان اپنے ریمارکس میں کہہ چکے ہیں کہ انتخابات کا معاملہ عوام کے حقوق کا معاملہ ہے، الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے قبل نشانہ نہ بنایا جائے، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ ضمانت کے لیے یہ بنیاد ہی کافی ہے کہ کسی فرد نے انتخابات میں حصہ لینا ہے۔
ایسے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے پشاور ہائیکورٹ کے عبوری فیصلے کے خلاف ریلیف لینا اتنا آسان نہیں ہوگا، بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر موجود رہا تو سیاسی پنڈتوں کے 8 فروری کے انتخابات سے متعلق دعوؤں کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے، بقول بلاول بھٹو کہیں میاں صاحب کو یہ ہی نہ کہنا پڑ جائے کہ مجھے کیوں بلایا؟
بلے کے انتخابی نشان کے اثرات اپنی جگہ مگر الیکشن کمیشن حکام کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلوں پر رد عمل انتخابی عمل کیلئے اچھا شگون نہیں، پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں سے پریشان الیکشن کمیشن نے کوہاٹ کے ریٹرننگ افسر کی تعیناتی معطل ہونے کے معاملے پر سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
الیکشن کمیشن حکام نے گزشتہ روز میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ریٹرننگ افسر کی تعیناتی معطل ہونے کے بعد کوہاٹ کا حلقہ پی کے 91 ریٹرننگ افسر کے بغیر کام کر رہا ہے، ان حالات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کیلئے الیکشن کروانا مشکل ہوتا جا رہا ہے، ایک ایسے وقت میں جب ملک میں انتخابی شیڈول پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے الیکشن کمیشن حکام کی جانب سے یہ کہا جانا کہ ان حالات میں کمیشن کیلئے الیکشن کرانا مشکل ہوتا جارہا ہے، تشویشناک ہے۔