ہائیکورٹ نے سائفر کیس کے ان کیمرہ ہونے والے ٹرائل پر سوالات اٹھا دیےاور جسٹس گل حسن اورنگزیب نےریمارکس دیئے کہ خصوصی عدالت کے جج کو ہر سماعت پر ٹرائل اوپن کرنے کا حکم دینا چاہئے تھا،اوپن ٹرائل کیا ہے یہ واضح کر چکے ہیں،تم آ جاؤ اور تم آجاؤ، یہ اوپن ٹرائل نہیں ہوتا۔میں خود کو اس عدالت کے سائفر ٹرائل کے خلاف پچھلے کیس کی کارروائی سے لاتعلق نہیں کر سکتا، سائفر ٹرائل جس طریقےسے ہو رہا ہے اس پر فکر مند ہوں۔بعد ازاں عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف سائفر کیس کا ٹرائل روک دیا۔
تفصیلات کے مطابق سائفر کیس کی ان کیمرہ کارروائی کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، جس میں بیرسٹر سلمان اکرم راجا ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وکلاء سکندر ذولقرنین، عثمان ریاض گل، انتظار پنجوتا و دیگر عدالت پیش ہوئے جبکہ عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت پیش ہوئے۔
سائفر کیس میں ایف آئی اے اسپیشل پراسیکوشن ٹیم بھی عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ مجھے کچھ تشویش ہے جس طرح کارروائی آگے بڑھ رہی ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے ٹرائل سے متعلق اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لینا ہے۔ ایک دو لوگوں یا خاندان کے افراد کی موجودگی سے بھی یہ کلوزڈ ڈور ٹرائل ہی رہے گا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پراسکیوشن کے 25 گواہان کا بیان ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔ 21 دسمبر کے بعد 12 گواہان کے بیانات میڈیا کی موجودگی میں ریکارڈ کیے گئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سماعت کے مطابق ٹرائل جیل میں ہو گا تو اوپن ہو گا ۔ اب صورتحال تبدیل ہوئی ہے کہ جیل ٹرائل ان کیمرہ ٹرائل ڈکلیئر کر دیا گیا ۔ ان کیمرہ کا سیکشن 14 کا آرڈر فیلڈ میں ہے اس کی موجودگی میں کیا ہوا ۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس ججمنٹ میں اوپن ٹرائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کیوں نہیں سمجھتے۔سائفر ٹرائل کو جلد بازی میں کیا جا رہا ہے، اوپن سماعت کی اہمیت خصوصی عدالت کے جج پر واضح ہے نا ہی پراسیکیوٹرز پر،سائفر ٹرائل اپنی نوعیت کا پہلا ٹرائل ہے،دیکھنا ہو گا کہ اس طرح کے کیسز میں آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل کا حق ملا یا نہیں۔ 1923 میں انسانی حقوق بنیادی حقوق دنیا کو معلوم نہیں تھے ۔ یہ میرے سامنے فرسٹ ایمپریشن کا کیس ہے ۔ اسٹیٹ کی سیفٹی کمپرومائز نہیں ہونی چاہیے ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھیں وہ کہہ رہے ہے میٹریل ناکافی ہے ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسٹیٹ کا موقف ہے کہ 3 ایسے گواہ تھے جن کا بیان نشر نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ ان گواہان کے بیانات 15 دسمبر کو ریکارڈ کیے گئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ 12 دیگر گواہان کے بیانات بھی تو کلوزڈ ڈور ٹرائل میں ہوئے ہیں ناں۔ آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں ، ہم نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اوپن ٹرائل کیا ہوگا ۔ ان کیمرہ کرنے کی جج کی وجوہات دیکھ لیں اس میں 3 لائنیں لکھی ہوئی ہیں ۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اوپن ٹرائل کیا ہے یہ واضح کر چکے ہیں۔ تم آ جاؤ اور تم آ جاؤ، یہ اوپن ٹرائل نہیں ہوتا۔ اوپن ٹرائل میں جو چاہے آ سکتا ہے۔ میڈیا کو اجازت ہے کہ جو چاہے آ سکتا ہے۔ ایسے نہیں ہوتا، اس بارے باقاعدہ آرڈر ہونا چاہیے۔ کیا جرح میڈیا کی موجودگی میں کی گئی؟۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جن 3 افراد کی جرح ہوئی وہ سائفر کی کوڈ، ڈی کوڈ سے متعلق تھے۔ سائفر سے متعلق سیکرٹری خارجہ کا بیان بھی ان کیمرہ ہو گا۔
عدالت نے ریمارک دیئے کہ پراسیکیوشن کو کہنا چاہیے تھا کہ جج صاحب 3 گواہان کے لیے ان کیمرہ ٹرائل کا حکم دیں تا کہ ٹرائل پر سوالات نہ اٹھیں۔ کبھی کبھی اچھا بھلا کیس ہوتا ہے لیکن جس طریقے سے چلایا جاتا ہے،خراب ہو جاتا ہے۔
پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے عدالت میں کہا کہ سائفر ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سائفر ٹرائل کے لیے 14 دسمبر کو حکم ہوا اور 15 دسمبر کو ٹرائل شروع ہوااگر عدالت چاہتی ہے کہ جرح اوپن ہو تو ہو جائے گی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت نہیں کہہ رہی یہ ضرورت ہے کہ ٹرائل اوپن ہو اور یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ ان کیمرہ جرح صرف ان 4 گواہان کی ہو گی جو دفتر خارجہ کے سائفر سکیورٹی سے جڑے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں۔چاروں گواہان سائفر ٹرانسکرپٹ کرنے اور سائفر سکیورٹی سسٹم سے جڑے ہیں۔ان ملازمین کا کام پوری دنیا سے سائفر ڈی کوڈ کرنا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سائفر سسٹم کیسے کام کرتا ہے یہ تفصیلات پبلک کے سامنے نہیں لائی جا سکتی۔ 13 میں سے جو باقی 9 گواہان ہیں ان کی جرح دوبارہ کر لیں گےاگر عدالت 13 میں سے 9 گواہان کے بیانات کالعدم قرار دیتی ہے تو دوبارہ ہوں گے۔
عدالت نے وکیل سے پوچھا کہ آپ اٹارنی جنرل کی اس پیشکش پر کیا کہیں گے کہ گواہان کے بیانات دوبارہ ریکارڈ کرلیے جائیں؟۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت پہلے ٹرائل کورٹ کے ان کیمرہ پروسیڈنگ کے آرڈر کو دیکھے۔ میرے پاس پہلے 3 گواہان کے بیانات کے عدالتی آرڈر کی کاپی ہے۔
وکیل نے کہا کہ سرٹیفائیڈ کاپی تو پبلک دستاویز ہوتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری استدعا ہوگی کہ اسے پبلک نہ کیا جائے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ میں یہ دستاویزات دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ یہ مجھے فوری طور پر فراہم کریں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے میں اہم آئینی ایشوز سامنے آئے ہیں عدالت ان کو دیکھے گی۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنے فیصلے میں بھی مواد کو ناکافی قرار دیا تھا۔ میرا مائنڈ آج آپ نے بہت کلئیر کردیا ۔
جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا کہ آپ کا نکتہ کیا ہے؟
وکیل عثمان گل نے کہا کہ نکتہ یہ ہے کہ فرد جرم سے پہلے قانونی طریقہ کار مکمل نہیں کیا گیا، جج نے جس نوٹیفکیشن کا حوالہ دیا وہ یکم دسمبر کا ہے اور سائفر ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر چل رہا ہے۔
عدالت نے سوال کیا کہ اب تک کتنے گواہان کے بیانات مکمل ہو چکے؟
وکیل نے بتایا کہ کُل 27 گواہان میں سے 25 کے بیانات اور تین کی جرح مکمل ہوئی ہے۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے سائفر ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے نوٹس ہوں گے۔
عدالت نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری کردیا اور عمران خان کے وکیل کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر سائفر ٹرائل سے متعلق تمام ضروری دستاویزات جمع کرائیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی۔