پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ڈاکٹرخورشید اقبال پر مشتمل سنگل بنچ نے وفاقی نگران حکومت کی جانب سے پیسکو ملازمین کے مفت بجلی یونٹس ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا اور وفاقی حکومت اور پیسکو سے جواب طلب کرلیا جمعرات کے روز فاضل بنچ نے کاشف فرحان سمیت واپڈا کے دیگر افسران کی رٹ درخواست کی سماعت کی۔رٹ کی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل قاضی جواد احسان اللہ قریشی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل مختلف سکیل میں پیسکو میں افسران تعینات ہیں اور اپنی ڈیوٹی کررہے ہیں وفاقی نگران حکومت نے 5 دسمبر 2023کو ایک فیصلے کے تحت پیسکو افسران کے تمام بجلی یونٹس منجمد کردیئے اور انہیں ہدایت کی کہ اس کے عوض انہیں نقد رقم ملے گی۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ مفت یونٹس کوئی اضافی رقم یا مراعات نہیں بلکہ جس وقت ان افسران کی تقرری ہوتی ہے اس وقت ان کے تقررنامے میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ کتنی یونٹ مفت دیئے جائیں گے جو ان کے سروس رولز کا ایک جز ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کو اس ضمن میں کوئی مالی خسارہ برداشت نہیں کرنا پڑ رہا کیونکہ پیسکو اس کی قیمت ادا کرتی ہے اور اس قیمت کے عوض درخواست گزاروں کی تنخواہوں سے انکم ٹیکس بھی اسی تناسب سے کاٹا جاتا ہے جس تناسب سے انہیں مفت یونٹ دیئے جاتے ہیں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نگران حکومت اس نوعیت کے فیصلے کرہی نہیں سکتی کیونکہ انہوں اپنے فیصلہ کیا ہے کہ یہ یونٹس ہمیشہ کیلئے منجمد رہیں گے انہوں عدالت کوبتایا کہ ٹمز اینڈ کنڈیشنز آف سروس میں یہ واضح ہوتا ہے اور اسی شرائط کے تحت وہ یونٹ استعمال کرتے ہیں۔ قاضی جواد نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ پہلے سے طے شدہ قواعد اور ضوابط میں نگران حکومت تبدیلی یا واپس لینے کا اختیار رکھتی نہیں۔کیونکہ ان شرائط پر درخواست گزاروں کو ملازمت دی گئی اور اسے قبول بھی دونوں فریقین نے کیا ہے اب اگر کوئی نئی ترمیم لانی ہوگی اس میں دونوں فریقین رضا مند ہونگے بصورت دیگر ان کو لاگو کیا ہی نہیں جاسکتا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ وفاقی حکومت کا فیصلہ ہے اور ابھی تک پیسکو کے بورڈ اف ڈائریکٹرز نے اس کی منظوری نہیں دی انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ وفاقی حکومت نے بہت سی چیزیں نافذ کئے ہیں جس میں ریٹائر ملازم کے بچوں کا کوٹہ اور دیگر مرعات شامل ہے تاہم جب تک پیسکو کے بورڈ اف ڈائریکٹرز اس کو منظور نہیں کرتے تب تک وہ ان ملازمین اور پیسکو پر لاگو نہیں ہوتے۔ انہوں نے عدالت کو دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ اس ضمن میں جو بھی یونٹس خریدے جاتے ہیں باقاعدہ طور پر اس کی قیمت پیسکو بجلی فروخت کرنے والی کمپنی کو دیتی ہے اور وہی رقم وفاقی حکومت کو ملتی ہے تو کس طرح یہ وفاقی حکومت پر بوجھ بن جاتا ہے اور اگر کسی کے سروسز رولز میں ترمیم کرنے ہیں تو یہ نگران حکومت کا اختیار نہیں اور نہ ہی وہ اس قسم کی پالیسیوں کو بنانے کا۔عدالت کوبتایا گیا کہ یہ صرف میڈیا میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے کیا گیا ہے حالانکہ نگران حکومت کا کام صرف صاف وشفاف الیکشن میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے نہ کہ لوگوں کے مرعات واپس لیں اس کے ساتھ ساتھ مختلف ملازمین کو اپنے محکموں سے مراعات مل رہی ہیں تو کیوں صرف پیسکو کو ٹارگٹ کیا گیا ہے انہوں نے عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کو کالعدم اس لئے بھی قرار دیا جائے کیونکہ وہ ماورا آئین ہے اور جب تک پیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو منظور کرکے پیسکو ملازمین پر نافذ نہیں کرتا تب تک اس قسم کے فیصلے بیمعنی ہیں عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ تاحکم ثانی پیسکو کو اس فیصلے سے نفاذ سے روکا جائے عدالت نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے پیسکو ملازمین کے مفت بجلی یونٹس ختم کرنے کا فیصلہ معطل کردیا اور وفاقی حکومت اور پیسکو کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کرلیا۔