نواز شریف اور جہانگیر ترین سمیت آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دیئے گئے سیاستدانوں کے بارے میں سپریم کورٹ نے اہم قدم اٹھا لیا ہے۔
چیف جسٹس نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی بینچ تشکیل دیا ہے جو منگل کو سماعت کرے گا۔**
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سات رکنی لارجر بینچ کے سربراہ ہوں گے، جبکہ جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہوں گے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62 ون یاف کے تحت 2017 میں عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔
سات رکنی لارجر بنچ دو جنوری کو کیس کی سماعت کرے گا۔
گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق تمام درخواستیں ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت کے تحریری حکمنامے میں کہا تھا کہ نااہلی کی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں، کیس کے زیرِ التوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی آئینی سوال والے کیس پر کم از کم پانچ رکنی بنچ ضروری ہے۔
حکمنامے کے مطابق فریقین کے وکلا نے کہا ہے کہ نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے عام انتخابات سے پہلے اس عدالت کا فیصلہ ضروری ہے۔
یاد رہے کہ نواز شریف کے کاغذات نامزدگی منظور ہوچکے ہیں تاہم پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔
امیدواروں کی حتمی فہرست 13 نومبر کو جاری ہونی ہے۔ اس سے قبل نواز شریف اور جہانگیر ترین کے حوالے سے فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ بینچ میربادشاہ قیصرانی کیس میں تاحیات نااہلی سے متعلق نوٹس پر تشکیل دیا گیا ہے تاہم اس فیصلے کا اثر ان تمام سیاستدانوں پر ہوگا جو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیئے گئے ہیں۔
آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کیا ہے؟
آئینِ پاکستان کے دو آرٹیکلز قانون سازوں کی اہلیت سے متعلق ہیں۔ آرٹیکل 62 اہلیت اور آرٹیکل 63 کسی شخص کو پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے نااہل قرار دیتا ہے۔
آرٹیکل 62 کی ایک ذیلی شق 62 ون ایف کہتی ہے کہ کوئی شخص مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہیں ہو گا جب تک کہ وہ غیر منافع بخش، ایماندار، امین، عقلمند اور صالح نہ ہو۔ اور اس کے خلاف عدالت کی طرف سے کوئی اعلان نہ کیا گیا ہو۔
ویسے تو کسی رکن پارلیمنٹ کو ملک کے دیگر قوانین کے تحت سنگین جرائم کا مرتکب پائے جانے پر عوامی عہدہ رکھنے کیلئے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن 62 ون ایف کے تحت نااہلی زیادہ سخت ہے۔
دوسرے قوانین کے تحت نااہل شخص سزا کی تاریخ سے پانچ سال بعد پارلیمنٹ میں واپس آ سکتا ہے، لیکن 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے۔