سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نااہلی کالعدم قرار دے دی۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ سنایا۔
واضح رہے کہ 5 جنوری بروز جمعہ کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مختصر فیصلہ جلد سنائیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 7 رکنی لارجر بینچ کا حصہ تھے۔
عدالتی کاروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔
کیس کی آخری سماعت میں جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان، اٹارنی جنرل اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیے تھے۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ خاکوانی کیس میں سات رکنی بینچ تھا، سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی بینچ تھا، سات رکنی بینچ نے کہا یہ معاملہ لارجر بینچ دیکھے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بعد میں پانچ رکنی بینچ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں اپنا فیصلہ کیسے دیا؟ یاتو ہم کہیں سپریم کورٹ ججز کا احترام کرنا ہے یا کہیں نہیں کرنا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاکوانی کیس میں بھاری نوٹ لکھا، میں اس نوٹ سے اختلاف کر نہیں پا رہا، انہوں نے کہا ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے۔
قبل ازیں 11 دسمبر کو میر بادشاہ خان قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کی اگلی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون دانوں کا کہنا ہے کہ نااہلی 62 ون ایف کی بجائے الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دی گئی تو نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہوجائیں گے۔
قانون دانوں کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت نہیں لکھی لیکن ماضی میں سپریم کورٹ نے تشریح کرکے اسے تاحیات نااہلی سے تعبیر کیا تھا۔