سپریم کورٹ نے جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف شکایت گزاروں کو فریق بنانے کا حکم دے دیا۔
جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف آئینی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی خصوصی بینچ کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ نے جسٹس مظاہر نقوی کی حکم امتناع فوری دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کو ترمیمی درخواست جمع کرانے کا حکم دے دیا۔عدالت نے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
سماعت کے آغاز میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 209 ججز کے تحفظ کے لیے ہے، عدالت آرٹیکل 209 اور سپریم جوڈیشل کونسل کے انکوائری رولز 2005 دیکھے، رولز کے تحت جج کے خلاف شکایت گزار کا کردار بہت محدود ہے، ججز کے خلاف کارروائی کے لیے صدارتی ریفرنس یا کونسل خود کارروائی شروع کرتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ بار کونسلز کیا جج کے خلاف شکایت کرسکتی ہیں؟ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بار کونسلز نے درخواستیں دی تھیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا تھا کہ ججز کے خلاف شکایات بار کونسلز کر سکتی ہیں۔
وکیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر کیس آگے بڑھانے کے فیصلے والے دن کونسل نے21 درخواستیں خارج بھی کیں، جوڈیشل کونسل نے21 درخواستیں خارج کیں، 19 میں سے کسی شکایت گزار کو نہیں سنا گیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ معاملہ اب سپریم کورٹ کے سامنے ہے، عدالت سمجھتی ہے شکایت گزاروں کو نوٹس ہونے چاہئیں، ورنہ کارروائی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ جب آپ کا مؤقف ہے کہ شکایتیں بدنیتی پر مبنی ہیں تو شکایت گزاروں کو کیسے نا سنیں؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے اپنے ادارے کا تحفظ کرنا ہے، اگر ان شکایت گزاروں کو فریق بنایا تو تمام خارج شکایتوں پر 184/3 کی درخواستیں آئیں گی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا ججز کے خلاف نامعلوم درخواستیں بھی سنی جاتی ہیں؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ججز کے خلاف نامعلوم درخواستیں نہیں سنی جاتیں، جسٹس مظاہر کے خلاف بھی کسی نامعلوم کی شکایت نہیں ہے۔