بنگلا دیش الیکشن عالمی برادری نے قبول کر لیا، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی راہ ہموار

بنگلا دیش کے متنازعہ انتخابات امریکہ، یورپ اور روس سمیت عالمی برادری نے قبول کر لیے۔ اور اس فیصلے کے اثرات پاکستان کے انتخابات پر بھی مرتب ہونے کا امکان ہے۔

بنگلا دیش میں اتوار سات جنوری کو انتخابات کا اپوزیشن کی مرکزی جماعت بی این پی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ پولنگ کے روز حکمران عوامی لیگ کے مخالفین پر تشدد کے الزامات بھی سامنے ائے جبکہ پولنگ اسٹیشنوں میں ٹھپے لگانے کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں۔

خیال کے جا رہا تھا کہ ان متنازع انتخابات کے نتائج عالمی برادری کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے اور بنگلا دیش پر امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ یہ دونوں ہی بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برامدات کے بڑے خریدار ہیں۔

لیکن نتائج کا اعلان ہونے اور شیخ حسینہ واجد کی پانچویں مرتبہ جیت کی تصدیق کے بعد امریکا اور روس کی جانب سے جو رد عمل سامنے ایا اس نے پابندیوں کے امکانات ختم کر دیے۔

تازہ ترین رد عمل یورپی یونین کی جانب سے سامنے ایا ہے جو دیگر عالمی کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ سخت ہے اس میں انتخابات کے دوران تشدد کی مذمت کی گئی ہے تاہم بنگلہ دیش کے ساتھ پارٹنرشپ جاری رکھنے کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

نومبر دنیا کے کئی ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں لیکن پاکستان اور بنگلا دیش کے انتخابات پرعالمی مبصرین کی نظریں تھیں اور ان دونوں انتخابات کو دلچسپ قرار دیا جا رہا تھا۔

اپوزیشن کے بائیکاٹ کے سبب بنگلا دیش کے انتخابات عالمی میڈیا میں زیادہ موضوع بحث رہے بالخصوص اس وقت جب امریکہ نے بعض بنگلا دیشی عہدے داروں پر ویزا پابندیاں عائد کر دی اور یورپی یونین نے بھی ان انتخابات کے حوالے تشویش کا اظہار کیا۔

پاکستان میں الیکشن پر تاحال اس طرح کے سخت بیانات سامنے نہیں ائے اور نہ ہی کسی بڑی جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلا دیش میں انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی نگراں پاکستانی وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے حسینہ واجد کو فی الفور مبارکباد بھیجی باوجود اس کے کہ حسینہ واجد پاکستان کی نسبت بھارت کے زیادہ قریب سمجھی جاتی ہیں۔

بنگلا دیش کے انتخابات پر عالمی رد عمل کے بعد اگر پاکستان میں کسی کو بین الاقوامی تنقید کا خدشہ تھا بھی تو وہ ختم ہو گیا ہوگا۔