سیاسی عروج و زوال

سال 2023 بانی پی ٹی آئی کے نام رہا ہے آپ بانی پی ٹی آئی کو جو بھی نام دیں لیکن ایک بات طے ہے کہ بانی پی ٹی آئی 2023 کے افق پر نمایاں رہے ہیں اس سال میں پی ٹی آئی واحد سیاسی جماعت رہی ہے جو کہ ہر لحاظ سے اعتاب کا شکار رہی ہے۔

جیسے ہی بانی پی ٹی آئی اقتدار سے اترے ہیں انہوں نے ایک ایسا سیاسی بیانیہ بنایا جو کہ آج تک بھی اپنے عروج پر ہے ایک بات طے ہے بانی پی ٹی آئی جو بھی سیاسی بیانیہ بناتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب رہا ہے آپ کہہ سکتے ہیں موجودہ پاکستانی سیاست میں بانی پی ٹی آئی بیانیہ بنانے کے ماہر ہیں، آپ دیکھیں بانی پی آئی جب سے عدم اعتماد کے ذریعے اقتدارسے نکالے گئے ہیں اور انھوں نے جو بھی بیانیہ بنایا ہے وہ کامیاب رہا ہے۔

وہ اپنے اقتدار سے ہٹانے کو امریکی سازش کہتے ہیں جو کہ ایک عجیب سی بات لگتی ہے لیکن اس نے امریکی سازش کو اتنے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جس کو من وعن عوام نے تسلیم کیا ہے اور اس کے بعد بانی پی ٹی آئی نے اداروں کی مداخلت کا بیانیہ بنایا وہ بھی کامیاب رہا حالانکہ اس اداروں مخالف بیانیہ نے ان کی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا ہے اب تک جتنے سروے آئے ہیں لیکن عوام میں وہ آج بھی مقبول ترین لیڈر ہیں۔

ایک بات طے ہے بانی پی آٹی آئی سیاست کو اپنی کرکٹ کی ٹرم میں ٹی 20 اور ٹی 10 کے طور پر کھیلے ہیں جو کہ ان کی عوامی مقبولیت اور سیاست کیلئے تو ٹھیک ہے لیکن پاکستان کے جو موجودہ سیاسی حالات میں یہ ایک خوفناک عمل ہے پاکستان میں سیاست کو ٹیسٹ میچ کی طرح لے کر چلنا پڑتا ہے پاکستانی سیاست میں حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے پاکستان کی سیاست ایک دائرے کے گرد گھومتی ہے۔

جو آج حکومت میں ہے تو اس کا مخالف اعتاب میں ہوتا ہے جو اعتاب میں ہو وہ ضروری نہیں ہمیشہ اس طرح رہے جب دائرہ گھومتا ہے تو وہ اعتاب والا حکومت میں آتا ہے تو وہ اپنے مخالف کو نہیں چھوڑتا اس لئے ہم اس لحاظ سے بہت بد قسمت قوم ہیں کہ ہماری سیاست اس دائرے کے گرد گھومتی رہتی ہے یہی ہماری تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہے اس دائرے کے کھیل میں کامیابی کی سب سے بڑی وجہ قبولیت بھی ہے آپ جتنے مقبول ہوں آپ کی قبولیت نہیں ہے آپ کی سیاست پاکستان میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

2018 کے الیکشن میں بانی پی ٹی آئی کی قبولیت تھی اور ان کی مقبولیت بھی تھی اس لئے وہ اقتدار میں آگئے لیکن اب حالات مختلف ہوئے بانی پی ٹی آئی کی قبولیت نہیں رہی مگر وہ مقبول ضرور ہیں جب آپ کی قبولیت نہ ہو تو آپ اعتاب کا شکار ہوتے ہیں یہ قبولیت نہ ہونے کی جتنی بھی وجوہات ہیں یہ سب بانی ٹی آئی کے اپنی پیدا کردہ ہیں ان میں سب سے بڑی غلطی بانی ٹی آئی کی اداروں سے لڑائی ہے۔

خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی یہ لڑائی پاکستان میں جس سیاسی جماعت نے لڑی ہے اس کا انجام ہمیشہ برا ہی رہا ہے یہ ایک ایسی لڑائی ہے جس کا کبھی بھی فائدہ نہیں ہوا ہمیشہ نقصان ہی رہا ہے اس لڑائی کا سیاسی نقصان بھی ہوتا ہے اور ملک کو بھی نقصان ہوتا ہے اگر پاکستان کی سیاست کو دیکھا جائے تو طاقت کا محور اسٹیبلشمنٹ رہی ہے پاکستان کی ساری سیاست اس کے گرد گھومتی ہے جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں سب کی نظر ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی ہوتی ہے۔

تمام سیاسی پارٹیاں مقبولیت ہو یا نہ ہو قبولیت کیلئے اسٹیبلشمٹ کی طرف دیکھتی ہیں جس پارٹی کواسٹیبلشمٹ کا آشیر باد حاصل ہو جائے وہ الیکشن میں کامیاب ہو جاتی ہے جو پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے آشیرباد سے محروم ہو جائے چاہے وہ جتنی بھی مقبول ہو وہ الیکشن ہار جاتی ہے پاکستان میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں 1970 سے 2018 تک سب میں جو بھی اقتدار میں آیا ہے اس کو مقبولیت کے ساتھ قبولیت بھی ملی ہے۔

2024 کا الیکشن بھی قبولیت کے بغیر ناممکن ہے یہ اور بات ہے کہ اب کی اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ ہم نیوٹرل ہیں لیکن دوسری جانب ایک پارٹی کے بقول ان کے علاوہ سب پارٹیوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی جا رہی ہے سب جلسے ریلیاں کر رہے جبکہ دوسری پارٹی کارنر میٹنگ بھی نہیں کر سکتی، اگر ایسا چلتا رہا الیکشن ان حالات میں ہو بھی ہوگئے تو کون ان الیکشن کو شفاف مانے گا ؟ یہ آنے والے الیکشن پر سب سے بڑا سوالیہ نشان ہوگا لیکن جہاں تک اسٹیبلشمنٹ اور بانی پی ٹی آئی کی لڑائی کا سوال ہے تو جو بیانیہ بانی پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بنایا ہے وہ عوام میں آج بھی مقبول ہے۔

اب تک جتنے سروے آئے ہیں بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت ان کےسیاسی دور کے عروج پر ہے لیکن اس میں ن لیگ صرف بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا سیاسی فائدہ اٹھا رہی ہے نہ ہی ن لیگ کے پاس الیکشن میں جانے کا کوئی بیانیہ ہے اور نہ ہی نواز شریف واپس آ کر مقبول لیڈر بنے ہیں اب الیکشن جیتنے کیلئے ن لیگ کے پاس صرف قبولیت کا نعرہ ہے یہ اور بات ہے کہ وہ کہتے ہیں ہماری بات ہوگئی ہے اس کے علاوہ ن لیگ کے پاس عوام میں جانے کیلئے کچھ نہیں ہے نہ ہی ن لیگ الیکشن کو سنجیدہ لے رہی ہے۔

جب سے نواز شریف واپس آئے ہیں مینار پاکستان کے علاوہ کوئی بڑا جلسہ نہیں کر سکے اس کی وجوہات جو بھی ہوں اب نواز شریف سیاسی طور پر آخری مراحل میں ہیں ان کی سیاست عوامی سیاست سے ڈرئنگ روم کی سیاست میں منتقل ہوگئی ہے اب وہ روزانہ اپنے پارٹی ورکرز سے ملتے ہیں اور ان کے ذریعے میڈیا سے بات کرتے ہیں چلے جاتے ہیں اب نواز شریف کی سیاست راؤنڈ سے ماڈل ٹاؤن تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔

آج نواز شریف کی قبولیت ختم ہوجائے تو ان کی سیاست صفر ہو جائے گی کیونکہ اب وہ عوام میں مقبول نہیں رہے اس کی جو بھی وجوہات ہوں نواز شریف کو اس عمل کو سنجیدہ لینا چاہیے لیکن جہاں تک بانی پی ٹی آئی کی سیاست کی بات ہے ان کی سیاست عوام میں بہت مقبول ہے قبولیت صفر ہے بانی پی ٹی آئی 2023 کے مقبول ترین سیاستدان رہے ہیں۔