پاکستان کی سیاست میں ایسے اتار چڑھاؤ شاید ہی کبھی دیکھے گئے ہوں، یہاں تک کہ شیخ رشید جیسے گھاگ سیاستدان کو کہنا پڑ گیا کہ پاکستان کی سیاست پہلی مرتبہ ان کی سمجھ سے باہر ہے۔
سپریم کورٹ کے پتھر پر لکیر قرار دیئے گئے فیصلے کے باوجود کبھی ملک میں ایسی فضا بنتی دکھائی دیتی ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد ایک مرتبہ پھر بے یقینی صورتحال کا شکار دکھائی دینے لگتا ہے اور چند ہی گھنٹوں بعد امریکی اور برطانوی سفرا کی پاکستان کی سیاسی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد منظر نامہ یکسر بدلتا دکھائی دیتا ہے، پاکستان کی مقبول مگر زیر عتاب سیاسی جماعت تحریک انصاف ایک دن انتخابی عمل سے باہر ہوتی ہے تو دوسرے دن کامیاب اور جارحانہ انداز میں سسٹم میں واپس نظر آتی ہے۔
ریٹرننگ افسران کی جانب سے سینکڑوں نامزدگی فارم مسترد کر کے تحریک انصاف کے امیدواروں کو انتخابی عمل سے باہر کیا جاتا ہے تو الیکشن ٹربیونل آر اوز کے سینکڑوں فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر ان امیدواروں کو اہل قرار دے دیتے ہیں، الیکشن کمیشن بلے کا نشان تحریک انصاف سے واپس لیتا ہے تو پشاور ہائیکورٹ بحال کر دیتی ہے، اسی عدالتِ عالیہ کا دوسرا بینچ اس حکم امتناع کو واپس لے کر کھلاڑیوں کو بلے سے محروم کردیتا ہے تو اسی ہائیکورٹ کا ڈویژن بینچ بلے کا نشان بحال کر کے پندرہ منٹ میں فیصلے پر عملدرآمد کا کہتا ہے۔
سینیٹ سے انتخابات ملتوی ہونے کی قرارداد 8 فروری کے انتخابات پر بجلی بن کر گرتی ہے تو مولانا فضل الرحمان سمیت کئی سیاستدانوں کی حمایت اشارہ دیتی ہے کہ ملک میں ایسے حلقے موجود ہیں جو اس وقت انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتے، مگر ایسے طاقتور حلقے بھی موجود ہیں جو انتخابات کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں، تحریک انصاف کے مستقبل کے ساتھ ساتھ انتخابات کا انعقاد اس وقت بھی بے یقینی کا شکار ہے اور ان دونوں کی غیریقینی بھی ایک دوسرے کی وجہ سے ہی ہے۔
انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے قیاس آرائیوں کی ایک اور بڑی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سوا ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا تاحال انتخابی مہم شروع نہ کرنا ہے، سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی عوام کی عدالت میں پیش ہونے کی بجائے ڈرائنگ رومز میں بیٹھے ہوئے ہیں، ہر عام و خاص یہی سوال کرتا دکھائی دیتا ہے کہ انتخابات سر پر آنے کے باوجود سیاسی گہما گہمی کیوں نظر نہیں آ رہی۔
مسلم لیگ( ن) البتہ آنے والے چند روز میں عوام میں نکلنے جا رہی ہے، (ن) لیگ کی انتخابی مہم میں تاخیر کی بڑی وجہ ٹکٹوں کی تقسیم اور استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات ہیں، جو حل کر لیے گئے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ زیرِ عتاب پی ٹی آئی ملکی میڈیا میں سب سے زیادہ موضوع ٔبحث ہے جس کی انتخابی مہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے سیاسی حریف چلا رہے ہیں۔
قانونی محاذ پر کبھی پسپائی اور کبھی کامیابی کے بعد میڈیا چینلز کی سکرینوں پر جگہ لینے والی تحریک انصاف کی قیادت کبھی مظلومیت اور کبھی اچھے فائٹر کا تاثر دینے میں کامیاب نظر آتی ہے، مگر کیا پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات ختم ہو چکی ہیں ؟ کیا تحریک انصاف کی یہ واپسی اب حتمی ہے؟
پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے بلے کے انتخابی نشان سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلے کے نشان سے متعلق 22 دسمبر 2023ء کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر قانونی ہے، الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جمع کرایا گیا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر شائع کرے، پشاور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ پاکستان تحریک انصاف الیکشن ایکٹ کے تحت انتخابی نشان حاصل کرنے کی اہل ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے انتخابی عمل پر مغرب نظریں جمائے بیٹھا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت پر مسلسل زور دے رہا ہے، حال ہی میں مغربی سفارتکاروں کی پاکستان کے سیاسی ماحول میں انٹری نے بڑا واضح پیغام دیا ہے، امریکی سفیر نے بلاول بھٹوزرداری جبکہ برطانوی ہائی کمشنر نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔
ان سفرا نے ان ملاقاتوں کے ذریعے پیغام دیا کہ 8 فروری کے الیکشن کا انعقاد پاکستان کے مستقبل کیلئے انتہائی اہم ہے جبکہ آزادانہ اور سب کی شمولیت کے ساتھ انتخابات پر زور دیا گیا، سفارتی حلقوں کی جانب سے پاکستان کے انتخابی عمل میں اس حد تک دلچسپی کے بعد ایک بڑی جماعت کو مائنس کر کے عالمی سطح پر قابلِ قبول انتخابات کرانا یا انتخابات کو التوا کا شکار کرنا آسان کام نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی بڑی لیڈر شپ 9 مئی کے واقعات کے بعد قومی دھارے اور سیاسی منظر نامے سے باہر ہے، چند پرانے ناموں کے علاوہ پی ٹی آئی نئے چہروں کے ساتھ امیدوار میدان میں اتارے گی، اس کا اصل امتحان پولنگ ڈے یعنی 8 فروری کو ہوگا، جس میں کسی بھی امیدوار یا سیاسی جماعت کی جیت کیلئے پولنگ سٹیشن کے محرکات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، تحریک انصاف کے الیکشن میں ان یا آؤٹ ہونے کا معاملہ قانونی سے زیادہ جمہوری اور اخلاقی بن چکا ہے، سیاسی جماعتوں کی قسمت کا فیصلہ اب عدالتوں اور الیکشن کمیشن کی بجائے عوام نے کرنا ہے۔