یہ کہانی 31 سال قبل 1992ء کے بارسلونا اولمپکس کی ہے جب بیس بال کو پہلی بار اولمپکس مقابلوں کا حصہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ چونکہ اس وقت ہمارا ملک کھیلوں جیسے کرکٹ، ہاکی، اسکواش اور اسنوکر میں بہترین کارکردگی دکھا رہا تھا اس لیے موقع کی مناسبت سے خاور علی شاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ملک میں بلے اور گیند سے کھیلا جانا والا ایک اور مختلف کھیل متعارف کروائیں گے۔
خاور علی شاہ نے اس وقت ملک میں قومی چیمپیئن شپ کی میزبانی کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی ملک بھر کے تمام ایتھلیٹس خواہ وہ کسی بھی کھیل سے وابستہ ہوں، انہیں ان کیمپس میں مدعو کیا۔
فخر علی شاہ جو پاکستان کے لیے کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، کہتے ہیں کہ ’قومی چیمپیئن شپ کی تیاری کرنے کے لیے ہم نے تمام صوبوں کے متعلقہ حکام کو بیس بال کھیلنے کا سامان، کوچز، سیکھنے کے لیے ویڈیوز اور دیگر معاونت فراہم کیں‘۔
بعدازاں فخر علی شاہ نے انڈر 12 بیس بال ٹیم کی کوچنگ بھی کی اور دیگر ٹیموں کو مینج بھی کیا۔ بلآخر انہوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے جان نشین کے طور پر ادارے کی صدارت کے لیے انتخابات میں حصہ لیا اور ان میں کامیابی حاصل کرکے پاکستان فیڈریشن بیس بال (پی ایف بی) کے صدر کا عہدہ سنبھالا۔ وہ ورلڈ بیس بال سافٹ بال کنفیڈریشن (ڈبلیو بی ایس سی) ایشیا کے نائب صدر بھی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب 1992ء میں فیڈریشن نے چیمپیئن شپ منعقد کی تب پی ٹی وی نے براہِ راست اس کے میچ نشر کیے‘۔
ابتدائی دنوں میں پی ایف بی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بیس بال کے سامان کی مقامی سطح پر عدم دستیابی تھی۔ انہیں ہر چیز درآمد کروانی پڑی۔ پہلی قومی چیمپیئن شپ میں بلے بازوں نے بنا ہیلمٹ جبکہ کیچرز نے بنا گلوز کے کھیلا۔
جلد ہی پاکستان ڈبلیو بی ایس سی کا رکن بن گیا۔ تاہم سال 2004ء تک پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن (پی او اے) نے پی ایف بی کو تسلیم نہیں کیا۔
اس حوالے سے فخر علی شاہ بتاتے ہیں ’پی او اے میں کھیلوں کے اداروں کی شمولیت کی کچھ شرائط ہیں جیسے ایسوسی ایشن اور دیگر صوبائی اسپورٹس حکام کے ہمراہ قومی چیمپیئن شپ کی میزبانی وغیرہ۔ ہم نے یہ تمام شرائط پوری کردی تھیں اس کے باوجود ہمیں 2004ء میں پی او اے میں شامل کیا گیا جوکہ ملک میں بیس بال کی سرگرمیوں کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا۔
پی ایف بی کے قیام کے بعد سے پاکستان متعدد بین الاقوامی ایونٹس میں شرکت کرچکا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے براعظم میں بیس بال کی ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آیا۔ پاکستان کی بیس بال ٹیم کافی برسوں سے ایشیا کی 10 بہترین ٹیموں میں شامل ہے۔
درحقیقت پاکستانی ٹیم 2018ء میں دنیا کی 80 بیس بال ٹیموں کے درمیان 21ویں نمبر پر موجود تھی جوکہ ان لوگوں کے لیے حیران کُن ضرور ہے جویہ بھی نہیں جانتے کہ پاکستان کی اپنی بیس بال ٹیم اور کنفیڈریشن ہے۔ تاہم بین الاقوامی ایونٹس میں عدم شمولیت کی وجہ سے پاکستان نے اپنی رینکنگ گنوا دی اور اب وہ دنیا میں 49ویں جبکہ ایشیا میں 9ویں رینکنگ کی ٹیم ہے۔
فخر علی شاہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے 3 یا 4 بار ایشین گیمز میں شرکت کی ہے لیکن ہم حالیہ ایڈیشن میں شرکت نہیں کرپائے کیونکہ متعلقہ حکام نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس ہماری ٹیم کو بھیجنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ وہ ایسے ایتھلیٹس پر وسائل خرچ کرنا چاہتے تھے جو ملک کے لیے میڈل جیت کر لےکر آئیں۔
’لیکن پاکستان نے کتنے میڈلز جیتے؟ ہم میڈل جیتنے کے لیے مضبوط امیدوار تھے۔ فلپائن نے ایشین گیمز میں شرکت کی اور 129 پوائنٹس حاصل کرکے اپنی پوزیشن بہتر کی جبکہ دوسری جانب ہم نے اپنی رینکنگ بہتر کرنے کا سنہری موقع گنوا دیا‘۔
اگر کوئی پاکستان میں کھیلوں کی صورتحال سے تھوڑا سا بھی واقف ہے تو یہ بات اس کے لیے حیران کُن نہیں ہے کہ پاکستان میں اکثر مستحق کھلاڑیوں کو وسائل کی کمی کی وجہ سے مواقع نہیں مل پاتے۔ پاکستان اسپورٹس میں یہ عام سی بات ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیس بال کی ایسی تاریخ جس میں وسائل نہیں، بنیادی سہولیات نہیں، انفراسٹرکچر نہیں، حکومتی تعاون نہیں تو ایسے میں یہ کھیل کیسے پنپ سکا اور دور دراز علاقوں سے ایسے بیس بال کھلاڑی کیسے سامنے آئے جنہوں نے اپنے کھیل سے شائقین کو حیران کردیا؟
تو اس سوال کا جواب ہے ’وژن‘۔
فخر علی شاہ کہتے ہیں ’ایسی ٹیم ایک دن میں نہیں بن گئی۔ ہم نے اپنے نوجوان کھلاڑیوں پر برسوں محنت کی اور اب بلآخر اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں جوکہ ہمیں ایشیا اور دنیا کی نمایاں ٹیم بناتے ہیں‘۔
خاور علی شاہ اور فخر علی شاہ نے بیک وقت دو حکمتِ عملی پر کام کیا، قلیل مدتی اور طویل مدتی۔ قلیل مدت کے لیے یہ حکمتِ عملی اپنائی گئی کہ پاکستان کی بیس بال ٹیم جتنے بین الاقوامی ایونٹس میں شرکت کرسکتی ہے، کرے گی تاکہ دنیائے بیس بال میں پاکستان کو نمایاں رکھا جاسکے۔ مستقبل کے لیے کھلاڑی، حکام اور سہولیات پیدا کرنا طویل مدتی حکمتِ عملی میں شامل ہے۔
سال 2000ء میں خاور علی شاہ نے اسکول کے بچوں کے لیے بیس بال ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا اور یہیں سے پاکستان کو بیس بال کے نمایاں کھلاڑی اور مستقبل کے کپتان عمیر امداد بھٹی ملے۔
عمیر امداد بھٹی بتاتے ہیں کہ ’اسکول میں یہ ایونٹ 12 سال سے کم عمر بچوں کے لیے منعقد کیا گیا تھا اور میں نے اس ایونٹ میں اپنے والد کے دوست خاور شاہ کی درخواست پر شرکت کی۔ یہ میرا پہلا بیس بال ایونٹ تھا اور مجھے ایک ماہ کے کیمپ کے لیے منتخب کرلیا گیا‘۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’پھر میں نے جاپان میں منعقدہ بین الاقوامی ایونٹ میں شرکت کی جہاں فخر علی شاہ ہمارے کوچ تھے۔ اس کے بعد سے میں نے خود کو پاکستان بیس بال سے منسلک کرلیا‘۔
پورے ملک میں پی ایف بی کی 5 فعال اکیڈمیز ہیں جن میں صوابی اور جمرود جیسے علاقے بھی شامل ہیں۔ ان دونوں شہروں کی اکیڈمیز میں 6 سے 20 سال کی عمر کے 200 رجسٹرڈ کھلاڑی زیرِ تربیت ہیں۔
ان اکیڈمیز میں فیڈریشن کھلاڑیوں کو مفت میں بیس بال کا تمام ضروری سامان، کوچنگ سہولیات اور تکنیکی معلومات مہیا کرتا ہے۔ وہ کرائے کی زمینوں پر یہ سہولیات فراہم کرتے ہیں اور امریکا جیسے ممالک سے کم قیمت پر استعمال شدہ بیس بال کا سامان خریدتے ہیں۔
فخر علی شاہ بتاتے ہیں کہ ’دو سے تین بچے ہر سال ان اکیڈمیز سے قومی کیمپ میں اپنی جگہ بناتے ہیں۔ ہمارا ہدف 10 اکیڈمیز بنانا ہے کیونکہ ہمیں ان سے فائدہ پہنچ رہا ہے لیکن اکیڈمی بنانے کے لیے انتہائی محنت درکار ہے‘۔
ان کے دو کھلاڑی سید محمد شاہ اور واحد آفریدی کو حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی ایک نجی بیس بال لیگ کی ٹیم بیس بال یونائیٹڈ کے لیے کھیلنے کا موقع دیا گیا ہے جوکہ پاکستان میں بیس بال کے فروغ کی جانب مثبت قدم ہے۔
اس کے علاوہ فخر علی شاہ ایک ایسا نظام تشکیل دینا چاہتے ہیں جہاں انہیں ٹیلنٹ کو تیار کرنے، کوچ یا امپائر کی تربیت کے لیے کسی غیر ملکی کی ضرورت نہ پڑے۔
وہ کہتے ہیں ’میں نے مختلف ممالک سے لوگوں کو یہاں بلا کر ان سے کوچز کو تربیت دلوائی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان بیس بال میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ میں نے ڈبلیو بی ایس سی ایشیا سے درخواست کی کہ وہ ہمارے ایمپائرز کو بین الاقوامی میچز میں موقع دیں اور انہوں نے میری درخواست قبول کی۔ میں چاہتا ہوں کہ خواتین حکام بھی اس کھیل کو ملک میں پروان چڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘۔
عمیر امداد بھٹی جو واپڈا کے لیے کھیلتے ہیں، گزشتہ 33 سالوں سے پاکستان بیس بال سے وابستہ ہیں۔ خود ان کے مطابق انہیں یقین نہیں ہے کہ وہ اور مزید کتنے عرصے بطور کھلاڑی کھیل پائیں گے لیکن ایک چیز جس کا انہیں یقین ہے وہ یہ ہے کہ اس خطے میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے وہ اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
عمیر امداد بھٹی نے بتایا کہ ’میں نے چین سے کوچنگ کورس کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں کوچز کو تنخواہ نہیں دی جاتی اس کے باوجود میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کھلاڑیوں کو کوچنگ دوں گا‘۔
اس وقت ملک میں بیس بال کھلاڑیوں کی کوئی آمدنی نہیں ہے ماسوائے ان کھلاڑیوں کے جو واپڈا، آرمی یا ایچ ای سی جیسے نامور اداروں سے وابستہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب تک ہم اپنی گھر والوں کی کفالت اور دیگر اخراجات جیسی پریشانیوں سے نجات حاصل نہیں کرلیتے تب تک ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس وقت شعبے میں کام کرنے کے علاوہ کہیں سے آمدنی نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ نتیجتاً غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بیس بال کو بطور کریئر اپنا نہیں پاتے‘۔
تاہم دو کھلاڑیوں کا بیس بال یونائیٹڈ کے لیے منتخب ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بیس بال ٹیلنٹ کے لوگ معترف ہیں اور یہی بات اس کھیل میں پاکستان کا مستقبل بدل سکتی ہے۔
اگرچہ امید کی کرن تو موجود ہے لیکن اس کی جانب سفر بہت لمبا ہے۔ پاکستان کے بیس بال کھلاڑیوں کو دنیا کی ٹاپ ٹیموں کو چیلنج کرنے کے لیے کم از کم خصوصی طور پر مختص میدان، بنیادی سہولیات، معیاری سامان اور کسی حد تک حکومتی معاونت کی اشد ضرورت ہے۔