الیکشن ایکٹ 2017کے تحت الیکشن کمیشن اسی وقت پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرسکتا تھا کیونکہ جن دیگر 13پارٹیوں کو انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا گیا انہیں ایک بار بھی مہلت نہیں دی گئی لیکن پی ٹی آئی کو ایک اور موقع فراہم کیا گیا ۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی واضح کیاکہ انٹراپارٹی انتخابات پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق ہونے چاہئیں اور آئین میں درج تمام تقاضے پورے ہونے چاہئیں بصورت دیگر اسے انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا جائیگا (گویا صحیح معنوں میں انتخابات نہ کروانے کے جو نتائج ہوسکتے تھے اس سے متعلق پی ٹی آئی کو پہلے سے متنبہ کیا گیا تھا، اسلئے پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور وکلا کو چاہئے تھا کہ وہ انتخابی ڈرامہ رچانے کی بجائے صحیح انتخابات کرواتے ) لیکن الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے پی ٹی آئی اس کےشوکازنوٹس کیخلاف لاہور ہائی کورٹ گئی۔ وہاں سنگل بنچ نے اسکی سماعت کی تو پی ٹی آئی نے مطالبہ کیاکہ اس کیلئے فل بنچ بنایا جائے چنانچہ پانچ رکنی بنچ تشکیل دے دیاگیا۔
اس عمل کو خفیہ رکھا گیا تھا کہ اس روز صرف ایک انگریزی اخبار میں خبر چھپی تھی کہ شاید آج پی ٹی آئی کے انتخابات ہوجائیں) چنانچہ نہ اسلام آباد، نہ لاہور، نہ کراچی، نہ کوئٹہ بلکہ انتخابات کے ڈرامے کیلئے پشاور چنا گیا اور وہ بھی پشاور نہیں بلکہ اس سے باہر چمکنی کا ایک دیہات ۔ دوسری طرف اکبر ایس بابر جو ہائی کورٹ کے فیصلے کی رو سے تادم تحریر پی ٹی آئی کے رکن ہیں،ایک درجن مزید کارکنان کے ساتھ اس روز میڈیا کے کیمروں کے سامنے انتخاب لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی تلاش کرتے رہے لیکن انہیں کاغذات نامزدگی نہیں دئیے گئے یوں یہ سب لوگ بھی اس استدعا کیساتھ عدالت گئے کہ انہیں نام نہاد انتخابات میں حصہ لینے نہیں دیا گیا۔ ادھر پشاور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ سے پہلے ایک فیصلہ آیا، پھر دوسرا اور پھر دوسرے بنچ نے پی ٹی آئی کے حق میں ایک بلاجواز فیصلہ دیا جس کیخلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ دو دن پوری قوم کے سامنے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔
اس سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکلا اپنے کسی موقف کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہ کرسکےچنانچہ دل پر پتھر رکھ کر جسٹس فائز عیسیٰ اور انکے ساتھی ججز (دل پر پتھر رکھنے کے الفاظ میں اسلئے استعمال کر رہا ہوں کیونکہ جسٹس فائز عیسیٰ ہمیشہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے حق میں فیصلے دیتے رہے۔ چند روز قبل پرانا کیس نکال کر انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو بعداز مرگ سزا سنائی تھی جبکہ جسٹس مسرت ہلالی جج بننے سے قبل بھی انسانی حقوق کیلئے بھرپور طریقے سے سرگرم عمل رہیں) کو اپنے فیصلے میں لکھنا پڑا کہ :”الیکشن کمیشن آف پاکستان، 24مئی 2021سے ،جبکہ پی ٹی آئی مرکز اور صوبوں میں حکمران تھی، پر زور ڈالتا رہا کہ وہ انٹراپارٹی انتخابات کرائے ۔ اسلئے یہ ہر گز نہیں کہا جاسکتا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی کررہا تھا۔نہ ہمیں ایسے شواہد ملے کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی سے متعلق بدنیتی سے کام لے رہا ہے یا پھر تعصب سے کام لے رہا ہے ۔
الیکشن کمیشن نے ان سے سخت احکامات دیگر 13جماعتوں سے متعلق دئیے ۔اسی طرح کا ایک کیس الیکشن کمیشن کے سامنے 12جنوری 2024ء کو آل پاکستان مسلم لیگ کا آیااور کمیشن نے اسے سیاسی جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ الیکشن کمیشن چاہتا تھا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کرائے لیکن پی ٹی آئی نے صرف سرٹیفکیٹ پیش کرکے گلوخلاصی کرلی جبکہ ہمارے پاس ایسے کوئی شواہد بھی سامنے نہیں لائے گئے جس سے ثابت ہواکہ بادی النظر میں الیکشن سے ملتا جلتا کوئی عمل کیا گیا ہے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے چودہ ممبران شواہد کے ساتھ پیش ہوئے جنہوں نے ثابت کیا کہ انٹراپارٹی انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔اسی طرح ان ممبران کے پارٹی سے نکالے جانے کے بارے میں بھی شواہد پیش نہیں کئے گئے۔پی ٹی آئی سیکرٹریٹ کے جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا کہ انتخابات پشاور میں ہونگے لیکن پشاور کے بجائے چمکنی میں نام نہاد انتخابی عمل کروایا گیا۔ اگر پشاور ہائی کورٹ کے اس موقف کو صحیح مان لیا جائے کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ انٹراپارٹی الیکشن کی جانکاری کرے تو پھر پورے الیکشن ایکٹ کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق دفعات غیرموثر ہو جائینگے۔ اسلئے الیکشن کمیشن کے اپیل کو منظور کرتے ہوئے اسکے 22دسمبر 2023ء کے آرڈر کو برقرار رکھا جاتا ہے۔“