سیاسی و انتخابی منظرنامہ : پلان سی

آٹھ فروری کے بڑے سیاسی میچ کے لئے تحریک انصاف کے کھلاڑی تو میدان میں موجود ہیں مگر ان کے ہاتھ سے بلا چھینا جا چکا ہے، قانون کی زبان میں پاکستان تحریک انصاف بحیثیت جماعت انتخابات سے باہر ہو چکی ہے مگر سیاسی منظر نامے پر موجود ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں بلے کا انتخابی نشان پی ٹی آئی سے واپس لئے جانے کے بعد تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ مانگ رہے تھے مگر ہم سے تو فیلڈ بھی چھین لی گئی، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے لیول پلینگ فیلڈ کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے خلاف دائر درخواست واپس لیتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ اب معاملہ عوام کی عدالت میں لے کر جائیں گے، مگر کیا انتخابی نشان واپس لئے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ رکھنے کے قابل رہی بھی ہے یا نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کی بڑی قیادت کے نامزدگی فارم ریٹرننگ افسران کی سطح پر مسترد ہوئے اور الیکشن ٹربیونلز کے بعد ہائیکورٹس سے بھی ریلیف نہ ملا، اس کے بعد تحریک انصاف کا سارا انحصار انتخابی نشان ’بلے‘ پر تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ ووٹ امیدوار کو نہیں بلکہ انتخابی نشان کو پڑنا ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تو انتخابی نشان سے متعلق گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری آنکھ مچولی بھی ختم ہو گئی اور اس معاملے کو حتمی شکل مل گئی۔

تحریک انصاف نے اسی دوران بلے باز کا انتخابی نشان حاصل کرنے کیلئے پلان بی کا اعلان کیا تو چند گھنٹوں میں ہی وہ بھی ناکام ہوگیا مگر اس دوران بلے باز کا پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے سے روکنے کیلئے الیکشن کمیشن نے ایک فیصلہ جاری کیا جو آنے والے دنوں میں پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

تحریک انصاف کے امیدواروں کو ملک بھر میں آزاد امیدواروں کیلئے رکھے گئے انتخابی نشان الاٹ کئے جا چکے ہیں، کچھ ایسے انتخابی نشان ہیں جن پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے شروع ہو چکے ہیں، کسی جماعت کیلئے ملک بھر کے ہر حلقے میں ایک نئے انتخابی نشان کو امیدوار تک پہنچانا جہاں ایک بڑا چیلنج ہے وہیں انتخابی نشان کے بغیر الیکشن لڑنے کے آئینی اور قانونی نتائج الگ ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی حریف یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابی نشان واپس لئے جانے سے ان کا راستہ صاف ہو چکا ہے ، نہ تو اس کے پاس الیکٹ ایبلز ہیں نہ ہی پارٹی کا نشان ، 8 فروری کو پولنگ سٹیشن کے محرکات سے نا بلد امیدوار پرانے اور منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑیوں کے داؤ پیچ کا سامنا نہیں کر پائیں گے، یہ بھی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ موجودہ حالات میں پولنگ سٹیشن میں ہر ووٹ پر پہرا دینے والا پولنگ ایجنٹ بٹھانا تحریک انصاف کیلئے آسان نہیں ہوگا مگر تحریک انصاف اب پلان سی کا دعویٰ بھی کر رہی ہے، پی ٹی آئی کا ممکنہ پلان سی کیا ہے اور آنے والے سیاسی منظر نامے پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ انتخابی نشان چھن جانا تحریک انصاف کیلئے کتنا بڑا نقصان ہے، مختلف حلقوں میں دنیا نیوز کی جانب سے کئے گئے سروے کے دوران معلوم ہوا کہ انتخابی نشان چھن جانے کے بعد اس کے تحریک انصاف پر واقعی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، راولپنڈی اور اسلام آباد کے کچھ حلقوں میں تحریک انصاف کو ووٹ دینے کی خواہش رکھنے والوں سے جب پوچھا گیا کہ بلے کا انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس حلقے میں امیدوار کون ہے اور اس کا انتخابی نشان کیا ہے؟ تو ان ووٹرز کی اکثریت کو معلوم نہ تھا۔

تحریک انصاف یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ انتخابات میں ابھی تین ہفتے ہیں اور اس نے روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے ہر حلقے کے نئے انتخابی نشان اور نئے امیدوار سے متعلق ووٹرز کو انتخابی نشان سے آگاہی کا طریقہ کار وضع کر لیا ہے،اگر تحریک انصاف واقعی اپنے ووٹر کو متعلقہ انتخابی نشان کا بتانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کا چیلنج اس سے بھی بڑا ہوگا، خاص طور پر پنجاب میں پولنگ سٹیشنز پر مزاحمت کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے پولنگ ایجنٹس کو بٹھانا۔

پلان سی کے مطابق ان مراحل سے نکلنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے آزاد الیکشن لڑنے والے امیدوار کامیاب ہونے کی صورت میں مقررہ وقت میں پاکستان تحریک انصاف جوائن کرنے کا اعلان کریں گے، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان ضرور چھینا گیا ہے مگر بحیثیت جماعت اس پر پابندی نہیں لگی، الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ایک لسٹڈ جماعت کے طور پر موجود ہے جس کا فی الحال کوئی قانونی سربراہ نہیں کیونکہ اس کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم ہو چکے ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق ان آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں موجود سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے سے نہیں روکا جاسکتا، الیکشن رولز کے تحت کامیاب امیدوار کو کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد تین روز کا وقت دیا جاتا ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا چاہتا ہے جس کے بعد حتمی پارٹی پوزیشن جاری کی جاتی ہے۔

بلے باز کا انتخابی نشان روکنے کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ بھی تحریک انصاف کے کام آئے گا جس کے مطابق نامزدگی فارم میں لکھے جانے کے باعث انہیں پہلے ہی تحریک انصاف کا امیدوار تسلیم کیا جاچکا ہے، صرف ان کے پاس انتخابی نشان نہیں، تحریک انصاف کے امیدواروں کی پلان سی کے تحت پارلیمان میں انٹری کی صورت میں سیاسی جماعت دعویٰ کرے گی کہ پارٹی پوزیشن کے مطابق اسے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں حصہ دیا جائے۔

اگرچہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کیلئے ترجیحی فہرستیں الیکشن کمیشن کو فراہم کر چکی ہے مگر قانون میں یہ گنجائش بھی موجود ہے کہ مخصوص نشستوں کیلئے نام انتخابات کے بعد بھی فراہم کئے جا سکتے ہیں، پلان سی کٹھن سہی مگر اسے نظر انداز کسی صورت نہیں کیا جاسکتا، تحریک انصاف اپنے غلط سیاسی فیصلوں بلکہ بلنڈرز کے باعث اس حال کو پہنچی ہے مگر وہ کھیل سے بھاگنے کی بجائے مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انتخابی نشان آؤٹ ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف سیاسی منظر نامے سے آؤٹ نہیں ہوئی، اس صورتحال میں 8 فروری کے انتخابات کے بعد بھی سیاسی ہنگامہ خیزی جاری رہتی دکھائی دے رہی ہے اور سیاست سے جڑے یہ معاملات انتخابات کے بعد ایک مرتبہ پھر اعلیٰ عدالتوں میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔