اسرائیل کی افواج حماس کے زیر کنٹرول فلسطینی علاقے غزہ میں مسلسل کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے‘ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اگلے روز اسرائیلی فوج کو خاصا جانی نقصان پہنچا ہے۔ میڈیا نے ایک ہی دن میں24اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
البتہ میڈیا نے اسرائیلی فوجی ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ حماس کے جنگجوؤں نے ایک اسرائیلی فوجی ٹینک پر راکٹ حملہ کیا، اس کے قریب اسرائیلی فوجی2 عمارتوں کو گرانے کے لیے دھماکہ خیز مواد تیار کر رہے تھے، جب اسرائیلی ٹینک پر راکٹ حملہ ہوا‘ اسی دوران دونوں عمارتوں میں بھی شدید دھماکہ ہوا جس سے وہ زمین بوس ہو گئیں اور اسرائیلی فوجی ملبے کے نیچے آ گئے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے فوجیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیاہے، بہرحال جنگوں میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں‘ عالمی میڈیا کے مطابق غزہ میں اسرائیلی طیاروں نے خان یونس پر بمباری کی ہے‘اس بمباری کی زد میں آ کر 65فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کا بظاہر تو امکان نظر نہیں آ رہا تاہم ایک اسرائیلی ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے حماس کو 6شرائط پیش کر دی ہیں، جس پر جلد پیش رفت کا امکان ہے۔
چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے ساتھ معاہدہ خفیہ رکھا جائے گا اور حماس کی قیادت قیدیوں کی رہائی کو انسانی بنیادوں پر پیش کرے گی، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حماس کے پاس جو قیدی ہیں‘انھیں مرحلہ وار رہا کیاجائے گا۔ ابتدا میں خواتین، بزرگ اور زخمیوں کو رہا کیا جائے گا اور آخر میں اسرائیلی فوج اور پھر ہلاک افراد کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔
برطانیہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی فلسطین کی خودمختاری کی مخالفت مایوس کن ہے،بیلجیئم نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالتِ انصاف میں دائر کیے گئے مقدمے کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کے اسپتالوں میںمریض اور عملے کی حفاظت یقینی بنائے،غزہ میں جنگ بندی کے حامی امن کارکنوں نے امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹنگ کو بھی جنگ بندی مہم بنانے کی اپیل کر دی،امریکا میں سالانہ سن ڈانس فلم فیسٹیول میں سیکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے حماس پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔پرامید ہو کر سوچا جائے تو لگتا یہی ہے کہ فریقین جنگ بندی تک پہنچنے کی پس پردہ کوششیں کر رہے ہیں ‘بظاہر لگتا یہی ہے کہ معاملات طے پا چکے ہیں لیکن جب تک مصدقہ اطلاعات نہیں آتیں اس وقت تک ان خبروں کی صداقت مشکوک رہے گی۔
اسرائیل اور حماس کا تنازع پورے مشرق وسطیٰ کو متاثر کر رہا ہے۔اسرائیلی طیارے شام اور لبنان میں بھی کارروائیاں کر چکے ہیں جب کہ ترکی کی افواج بھی شامی علاقوں میں کارروائیاں کر رہی ہیں۔امریکا اور نیٹو ممالک عراق میں کارروائیاں کر رہے ہیںجب کہ امریکا اور برطانیہ حوثی ملیشیا کے زیر کنٹرول یمن کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کر چکے ہیں‘ اگلے روز بھی ان دونوں ملکوں نے یمن میں فضائی حملے کیے ہیں۔
غیرملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق یمنی دارالحکومت صنعا اور دیگر علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے ایک مشترکہ بیان میںکہا ہے کہ یمن میں حوثیوں کے 8 اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیان میں امریکا اور برطانیہ نے مزید کہاہے کہ حوثی بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کا اپنے مشترکہ بیان میں یہ بھی کہنا ہے کہ حوثیوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کا دوسرا مرحلہ جہاز رانی پر مسلسل حملوں کے جواب میں تھا۔
امریکا اور برطانیہ کے جنگی جہازوں، بحری جہازوں اور آبدوزوںکے مشترکہ حملے اس خطے کی صورت حال کو مزید سنگین بنا رہے ہیں کیونکہ حوثی فوج بھی بحیرہ احمر میں امریکا اور برطانیہ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے میزائل حملے کر رہی ہے۔ اس صورت حال سے مشرقِ وسطیٰ کی بحری تجارت شدید بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔
جس کے اثرات پورے بحرہند پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے چار ماہ کے دوران غزہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ عمارتیں کھنڈر میں تبدیل ہو گئی ہیں‘تعلیمی درسگاہیں بند ہیں‘اسپتال تباہ ہوچکے ہیں‘ سرکاری ملازمین گھروں میں بیٹھے ہیں‘شاپنگ مالز اور بازار بند ہیں‘لوگوں کا روز گار ختم ہو چکا ہے‘اقوام متحدہ کی امداد پر گزارا ہو رہا ہے۔ اس لڑائی میں بچوں اور خواتین کی ہلاکتوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔
سات سو کے قریب ڈاکٹرز اور میڈیکل ورکرزجاں بحق ہوئے ہیں جب کہ سول ڈیفنس کے کارکنوں اور صحافیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 150سے تجاوز کر چکی ہے‘ ہزاروں فلسطینی افراد لاپتا ہیں اور کئی لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں‘یہ نقصانات اس لڑائی کی شدت کو واضح کر دیتے ہیں۔ اسرائیل کے فوجیوں کا بھی جانی نقصان ہوا ہے لیکن فلسطینیوں کی نسبت اسرائیلی جانی نقصان بہت کم ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جب بھی لڑائی ہوئی، اس میں عام فلسطینی شہریوں کا نقصان ہوا ہے ۔ فلسطینیوں کا امیر اور مراعات یافتہ طبقہ امریکا، یورپ، بیروت، عمان اور قطر میں رہائش پذیر ہے۔
ان کے خاندان خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں رہنے والے عام فلسطینی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جو بے گھر ہو چکے ہیں، وہ پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔اسرائیل فلسطین تنازع کی وجہ سے شام اور لبنان غیر مستحکم ہوئے ہیں۔مشرق وسطیٰ کے یہ خوشحال ملک آج خانہ جنگی اور غربت کا شکار ہو چکے ہیں۔یہاں بھی سب سے زیادہ نقصان عام لوگوں کا ہوا ہے جب کہ شام کی اشرافیہ امریکا اور یورپ میں مقیم ہے۔
یمن اور عراق کی تباہی کے پس منظر میں بھی تنازع فلسطین اور اس سے پیدا ہونے والے دیگر معاملات ہیں۔یمن اور عراق کی اشرافیہ بھی امریکا اور یورپ میں محفوظ زندگی گزار رہی ہے اور اپنا اپنا کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو پورے مشرق وسطیٰ میںعام شہری اور ان کے مفادات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تنازع فلسطین کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر عام فلسطینی باشندے ہیں۔
عام فلسطینی اپنے جان ومال اور چادر وچاردیواری کا تحفظ چاہتا ہے، اس کے لیے ہی وہ ایک آزاد اور خودمختار وطن کا مطالبہ کرتا ہے جو ہر فلسطینی کا حق ہے۔ اس حق کے لیے فلسطین کے لوگ برسوں سے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں لیکن وہ جنگ کے متحمل نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس عسکری وسائل ہی نہیں ہیں، فلسطینی باقاعدہ فوج رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس فضائی قوت موجود ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیل جیسی عسکری طاقت کے ساتھ باقاعدہ جنگ کیسے ہو سکتی ہے۔ گوریلا کارروائیاں کرنا ایک الگ بحث ہے جب کہ باقاعدہ جنگ ایک الگ چیز ہے۔
فلسطینی قیادت کو بھی ان معاملات کا ادراک ضرور ہے لیکن سیاسی قیادت کے باہمی نظریاتی اختلافات نے فلسطینیوں کی وحدت اور متفقہ مؤقف کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ فلسطینی قیادت کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے کہ ان کی حکمت عملی میں کہاں خرابی ہے؟ ان کی نظریاتی تقسیم آزادی فلسطین کی جدوجہد اور عام فلسطینیوں کے مفادات پر کتنی بھاری پڑ رہی ہے۔
اس کا اندازہ شاید انھیں نہیں ہو پا رہا، فلسطینی قیادت کو اپنے نظریات اور گروہی مفادات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ فلسطینیوں کی تحریک صحیح معنوں میں متفقہ قومی آزادی کی تحریک بن سکے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی قیادت کو اپنے اپنے مفادات کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے مشترکہ میکنزم تیار کرنا چاہیے۔
ریاستوں کو اپنے سیاسی‘ معاشی اوراسٹریٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے مذہب‘ عقائد اور مسالک کو بطورحکمت عملی اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ مفادات کو مفادات کے طور پر سامنے رکھ کرہی باہمی تنازعات کا مستقل اور قابل عمل حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔