عام انتخابات : آزاد اُمیدواروں کا مستقبل؟

 آٹھ فروری کے روز ممکنہ عام انتخابات سے قبل دو سوالات سب سے زیادہ زیر بحث تھے کیا انتخابات ہو پائینگے ؟ اگر انتخابات ہوئے تو کیا پاکستان تحریک انصاف ان انتخابات میں حصہ لے سکے گی ؟ ان دونوں ہی سوالوں کے جواب سامنے آچکے ہیں، صورتحال واضح ہو چکی ہے ۔

ملک میں عام انتخابات اب ہونے جارہے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف بحیثیت جماعت ان انتخابات سے باہر ہو چکی ہے ، اسکے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مختلف اور نت نئے انتخابی نشانات کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں، اب یہ سوال سب سے زیادہ زیر بحث ہے کہ جیتنے کی صورت میں ان آزاد امیدواروں کا مستقبل کیا ہو گا۔

اگرچہ کئی رکاوٹوں کے باوجود یہ امیدوار بیلٹ پیپرز پر اپنا نام چھپوانے میں کامیاب ہو گئے مگر ان کابڑا امتحان پولنگ ڈے پر ہوگا، اگر یہ امتحان پاس کر لیا تو اس سے بھی بڑ ا امتحان 8فروری کے بعد ہو گا جب آزاد امیدواروں کو کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد تین روز میں کسی بھی سیاسی جماعت کو جوائن کرنے کا وقت دیا جاتا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حریف سیاسی جماعتوں نے تو ان آزاد امیدواروں پر نظریں جما رکھی ہیں۔

استحکام پاکستان پارٹی دعویٰ کرتی دکھائی دیتی ہے کہ یہ امیدوار جیتنے کے بعد انکے پلڑے میں جائیں گے، پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ بات کرتے نظر آتے ہیں کہ آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنائی جا سکتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کو بھی مسند اقتدار تک پہنچنے کیلئے ان آزاد امیدواروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔

کونسی جماعت کتنے نمبرز حاصل کرے گی یہ فیصلہ تو عوام 8 فروری کو کرینگے مگر صوبے کے لحاظ سے سیٹیوں کے آئینی تقسیم اور ماضی کے انتخابات کا ٹرینڈ دیکھیں تو صورتحال کافی حد تک واضح ہوتی نظر آتی ہے ۔

قومی اسمبلی کی کل 336 میں سے 266 جنرل جبکہ بقیہ مخصوص نشستیں ہیں، ان 266 نشستوں پر ملک بھر میں براہ راست انتخاب ہوگا ، اسکے لئے پنجاب سے نشستوں کی تعداد 141 ہے ، سندھ کی 61 نشستیں ہیں ، خیبر پختونخواہ کی 45، بلوچستان 16 جبکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی 3 نشستیں ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے حریف بھی یہ سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے حمایتی آزاد امیدوار مضبوط پوزیشن میں ہیں، 2018 میں پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں 30 نشستیں حاصل کی تھیں، پاکستان مسلم لیگ ن کے اپنے اندازوں کے مطابق پنجاب میں وہ 90 سے زائد نشستیں آسانی سے حاصل کر لیں گے، 25 سے 30 نشستیں ایسی ہونگی جہاں مقابلہ انتہائی سخت ہو گا جبکہ باقی نشستوں پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جیت سکتے ہیں۔

اگر مسلم لیگ ن کے اس تخمینے کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو دوسرے نمبر پر گراؤنڈ پر پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مقابلے میں نظر آتے ہیں، اندرون سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم کی پوزیشن مستحکم دکھائی دے رہی ہے ، خیبر پختونخواہ میں جیسا سمجھا جا رہا ہے اگر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اتنے ہی نمبرز لینے میں کامیاب ہو گئے اور پنجاب میں دوسرے نمبر پر رہتے ہوئے بقیہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی تو لگ بھگ 60 سے 70 نشستوں کیساتھ یہ آزاد امیدواروں کی جیت کا تاریخی الیکشن ہو سکتا ہے ۔

سیاسی جماعتوں کے اپنے اندازوں کے مطابق کسی ایک جماعت کیلئے 8 فروری کو حاصل ہونے والے نمبرز کی بنیاد پر سادہ اکثریت کیساتھ حکومت بنانا ممکن نظر نہیں آتا ، ایسی صورتحال میں اصل میدان 8 فروری کے بعد لگے گا، جوڑ توڑ کی سیاست شروع ہو گی ، ان آزاد امیدواروں کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے وعدے وعید ہونگے، ان امیدواروں کو انکے حلقوں میں ترقیاتی کام کروانے اور انہیں عہدے دیئے جانے کا لالچ دیا جائے گا۔

تحریک انصاف کے حمایت یافتہ وہ امیدوار جن کی تحریک انصاف کیساتھ وابستگی بالکل نئی ہے یا انہیں کسی بھی وجہ سے انتخابی مہم چلانے میں بھی کوئی مشکلات نہیں، انکے دیگر جماعتوں میں جانے کے سب سے زیادہ امکانات ہیں، استحکام پاکستان پارٹی زیادہ پر امید دکھائی دیتی ہے کہ ان آزاد ارکان کی ایک بڑی تعداد اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیگی، البتہ پاکستان تحریک انصاف کے جیتنے والے نظریاتی اراکین اگر قانونی پیچیدگیوں کے باعث پی ٹی آئی جوائن نہ کر سکے تو وہ اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں گے۔

قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 336 ہے ، ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے 169 نشستیں درکار ہونگی۔ سادہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے کسی بھی جماعت کو135 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی ، مخصوص نشستوں کو ملا کر نمبر 169 تک پہنچے گا، بصورت دیگر اسے بیساکھیوں کی ضرورت پڑے گی، سادہ اکثریت حاصل کرنے کی خواہشمند جماعت کیلئے تھوڑے فرق والے 25 سے 30 حلقے انتہائی اہمیت کے حامل ہونگے جہاں مار دھاڑ ہوسکتی ہے اور انتخابی نتائج کے معاملات الیکشن ٹربیونلز میں جائینگے۔

2013 کی پارٹی پوزیشن کو دیکھیں تو پاکستان مسلم لیگ ن نے عام انتخابات اور اسکے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتیجے میں 148 جنرل نشستیں حاصل کیں ، خواتین کی 35 اور اقلیتوں کی 6 نشستیں ملا کر ن لیگ کے پاس کل 190 ارکان تھے، پاکستان پیپلز پارٹی نے 38 جنرل نشستیں حاصل کیں ، مخصوص 9 نشستوں کو ملا کر یہ تعداد 47 ہو گئی، پاکستان تحریک انصاف نے 26 جنرل نشستیں حاصل کیں۔

2018 میں جب پاکستان تحریک انصاف نے بطور ایک مقبول جماعت 123 جنرل نشستیں حاصل کیں، مخصوص نشستیں ملا کر پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی کل تعداد 156 تک پہنچی ، سادہ اکثریت بنانے کیلئے اسے کئی چھوٹی جماعتوں کو اتحادی بنانا پڑا۔ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 66 نشستیں حاصل کیں تو پاکستان مسلم لیگ ن صرف دو نشستوں کے فرق سے 64 سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں صرف 6 جنرل نشستیں حاصل کیں۔

خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 30 نشستیں حاصل کیں جبکہ ن لیگ کو صرف تین نشستیں ملیں۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 36 نشستیں ، تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 16 جنرل نشستیں حاصل کیں جبکہ ن لیگ ایک بھی نشست نہ جیت سکی۔