عالمی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ تو سنادیا ہے کہ اسرائیل فلسطین بالخصوص غزہ میں نسلی کشی کا مرتکب ہورہا ہے۔ لیکن اس فیصلے کو نافذ کرنے کا اختیار عالمی عدالت کو حاصل نہیں ہے۔ صرف رائے عامہ کا دبائو اسرائیل پر پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کو عالمی رائے عامہ کی پروا نہیں ہے کیونکہ دنیا پر حکومت کرنے والی عالمی طاقتیں امریکا، برطانیہ اور فرانس اسرائیل کی پشت پناہی کررہی ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اسرائیل کے خلاف کئی قراردادیں منظور ہوئی ہیں اس کا بھی اسرائیل پر کوئی دبائو نہیں ہے۔ اس لیے کہ جنرل اسمبلی کو بھی قوت نافذہ حاصل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے کیے گئے فیصلوں کا نفاذ اس وقت ہوتا ہے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوئی قرار داد منظور کرے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 5 طاقتوں کو فیصلوں کو منسوخ کرنے کا اختیار (ویٹو) حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف جتنی قراردادیں منظور کی گئی ہیں اسے امریکا و برطانیہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ویٹو کردیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس عالمی برادری کو انتباہ کرچکے ہیں کہ اسرائیل شہریوں کو نشانہ بنارہا ہے، یہاں تک کہ اسرائیل کو اتنی جرأت حاصل ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اداروں کے کارکنوں کو نشانہ بناتا ہے۔ باقی اس نے شہری آبادی، پناہ گزین کیمپوں اور اسپتالوں تک کو اپنی بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ بھی اسرائیل کے حوالے سے متعصبانہ رپورٹنگ کرتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے پہلی بار اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینیوں کے مصائب دنیا کے سامنے آئے ہیں۔ اسرائیل کی تاریخ یہ ہے کہ امریکا کے دبائو پر فلسطینیوں کی مزاحمت کرنے والے رہنما یاسر عرفات کے اوسلو مذاکرات کے تحت معاہدہ کیا، جس کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جانی تھی، یاسر عرفات کا یہ فیصلہ مجبوری کے عالم میں کیا گیا تھا لیکن یاسر عرفات نے یروشلم سے دست بردار ہونے سے انکار کردیا اور اس موقف پر قائم رہے کہ یروشلم جہاں مسجد اقصیٰ قائم ہے فلسطین کا دارالحکومت ہوگا۔ اسرائیل نے اس معاہدے پر بھی عمل نہیں کیا۔ امریکا اور مغربی طاقتوں کے دبائو کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام کے ممالک نے بھی ہتھیار ڈال دیے لیکن غزہ کی پٹی کے محصور فلسطینی باشندوں نے مزاحمت کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثال معاصر تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس مزاحمت نے اسرائیل کی وحشت و درندگی اور دہشت گردی کو طشت ازبام کردیا۔ وہ مسلم ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔ ان کے منصوبے ناکام ہوگئے۔ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کی دہشت گردی اور فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا مطالبہ کرنے کے باوجود اسرائیل کے جرائم جاری ہیں۔ اسرائیل کے بدترین قتل عام کی تازہ سامنے آئی ہے۔ شمالی غزہ کے ایک اسکول سے 30 سے زائد لاشیں ملی ہیں جن کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے۔ فلسطینی وزارت خارجہ کے مطابق لاشیں شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیہ میں خلیفہ بن زاید اسکول سے اجتماعی قبر سے ملی ہیں۔ ان لاشوں کی آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے۔ اس علاقے کو اسرائیلی فوج نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی تھیں۔ فلسطینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو بظاہر پھانسی دی گئی۔ ایک اور خبر کے مطابق اسرائیلی فوجوں نے اپنے یرغمالیوں کی تلاش میں فلسطینیوں کی قبریں تک اکھاڑ دیں۔ عالمی دبائو پر اسرائیل کی فوج نے 100 سے زائد میتیں واپس کی ہیں جن کی دوبارہ تدفین کی جائے گی۔ ایک طرف اسرائیل کی وحشت و درندگی ہے جس کا شکار عورتیں، بچے، بوڑھے، مریض اور زخمی ہورہے ہیں۔ دوسری طرف حماس اسرائیلی فوجی قیدیوں کو پورے احترام سے رکھتی ہے۔ جنگ کے باوجود قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا اعتراف رہا ہونے والے قیدیوں نے کیا ہے۔ اس رویے کو عالمی ذرائع ابلاغ دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے، صرف امریکا اور اسرائیل کا موقف دہراتے رہتے ہیں کہ حماس دہشت گرد ہے اور حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ حماس کے ترجمان خالد قدومی نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں کے سامنے امریکا اور اسرائیل کے الزام کے جواب میں بالکل درست کہا ہے کہ جس کو امریکا اور اسرائیل دہشت گرد قرار دیں وہ ضرور اچھا ہوگا۔ عالمی ضمیر اسرائیل کے جرائم کی مذمت کررہا ہے لیکن ابھی تک کوئی مسلم ملک متحرک نہیں ہوا ہے کہ وہ فلسطین کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے۔