اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے 5 فروری 2023ء تک یوکرین پر روس کے حملے کے دوران 7ہزار1سو55 شہری ہلاکتوں کی تصدیق کی۔ ان میں سے 4سو38 بچے ہیں۔ مزید برآں، 11ہزار6سو62 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کو 60ہزار سے 80ہزار فوجیوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تجزیہ کاروں کی ایک آزاد ٹیم اوریکس، جس نے جنگ کے دوران آلات کے نقصانات پر اوپن سورس انٹیلی جنس کا پتہ لگایا ہے، اندازہ لگایا ہے کہ 1ہزار7سو سے زائد روسی ٹینک تباہ ہوئے، انہیں نقصان پہنچایا یا وہ پکڑے گئے ہیں۔ فی الحال ہلاکتوں کے درست اعداد و شمار سامنے آنا مشکل ہے۔
جرمن تھنک ٹینک کیل انسٹی ٹیوٹ فار ورلڈ اکانومی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، نیٹو کے ارکان نے 24 جنوری سے 20 نومبر 2022ء کے درمیان کم از کم 75اعشاریہ2 ارب یورو (80اعشاریہ5 ارب ڈالر) کی مالی، انسانی اور فوجی امداد کا وعدہ کیا گیا۔47اعشاریہ 8 ارب یورو (51اعشاریہ2 ارب ڈالر) کے وعدوں کے ساتھ امریکہ یوکرین کا سب سے بڑا تعاون کرنے والا ہے، جس میں کم از کم 22اعشاریہ9 ارب یورو (24اعشاریہ5ارب ڈالر) فوجی امداد کے لیے، 15اعشاریہ05 ارب یورو (16اعشاریہ1ارب ڈالر) مالی امداد اور 9اعشاریہ9 ارب یورو (10اعشاریہ 6 ارب ڈالر )انسانی امداد مد میں ہیں۔فوجی امداد میں یوکرین کی فوج کے لیے ہتھیار، سازوسامان اور مالی امداد شامل ہے۔ انسانی امداد میں شہریوں کے لیے طبی، خوراک اور دیگر اشیاء شامل ہیں، جب کہ مالی امداد گرانٹس، قرضوں اور ضمانتوں کی شکل میں مل رہی ہے۔
مندرجہ بالا امداد، جس کی مالیت ایک سال میں تقریباً 100 ارب ڈالر ہے، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ جنگ متعلقہ ممالک(اسٹیک ہولڈرز) کے لیے کتنی مہنگی ہوگی۔ پروفیسر اسٹیفن والٹ کے مطابق، جنگ کا جاری رہنا روسی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ’’روس اب ایک ایسے حریف سے لڑ رہا ہے جس کی (روس کے 1اعشاریہ8 ٹریلین ڈالر کے مقابلے) میں مجموعی جی ڈی پی 40 ٹریلین ڈالر سے زائد ہے اور جس کی دفاعی صنعتیں دنیا کے سب سے مہلک ہتھیاروں کی پیداوار کررہی ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’مجموعی وسائل میں یہ تفاوت یوکرین کی فتح کی ضمانت نہیں دیتا، لیکن اس نے اس چیز کو تبدیل کر دیا ہے جس کی ولادیمیر پوٹن کی توقع تھی کہ ایک مہنگی جنگ سے دستبرداری آسان ہوگی۔‘‘
بلاشبہ روس کو اس حد تک بحران کا سامنا ہے کہ اسے ایرانی ڈرون پر انحصار کرنا پڑا۔ تاہم، یہ نیٹو ممالک کے لیے یکساں طور پر ایک تجربہ کو تقویت بخشے گا، جنہوں نے نہ صرف اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے، بلکہ یوکرین کو فراہمی کیلئے اپنے فوجی ہتھیاروں کی کارکردگی کو بڑھانا پڑا۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ یوکرین کی جاری جنگ میں آگ بھڑکانے پر بضد ہے۔ صدر جوبائیڈن کا 21 فروری کو یوکرین کا اچانک دورہ اس بات کا مضبوط اشارہ تھا کہ امریکی امداد کو کم کرنے کے لیے اندرون ملک بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود امریکا صدر ولودومیر زیلنسکی کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ جاری جنگ کے مستقبل کے واقعات کی بھی عکاسی کرتا ہے، جس میں امریکہ اور نیٹو یوکرین کے صدر ولودومیرزیلنسکی کو ہٹانے کی روسی کوششوں کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔