چناو¿ کے موسم کے اپنے سو بکھیڑے ہوتے ہیں اسے صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا جاسکتا کہ گھر سے نکل کر کسی کے حق میں اپنا فیصلہ دے کر واپس آ جائیں ،ہم مجلس ساز اور مجلس باز لوگ ہیں جہاں چار لوگ اکٹھے ہوئے ہم بھی ” جما جنج نال “ کے طور پر کھڑے ہو جاتے ہیںویسے بھی اصل کہانی تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے کیونکہ یہ جاننا بھی لازمی ہوتا ہے کہ کون کون چنا گیا اور کون اس مقابلہ میں پیچھے رہ گیا،یہ اور بات کہ پیچھے رہنے والوں کو یہ باور کرانا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کبھی کبھی دوسروں کا جیتنا بھی ضروری ہے لیکن جن لوگوں کو اپنی جیت کا پختہ یقین ہو تا ہے وہ اس طرح کے فیصلے قبول نہیںکرتے جس کے نتیجے میںیہاں وہاں ہنگامے جاگ اٹھتے ہیں جو گلی محلے سے لے کر عدالتوں تک بھی جا پہنچتے ہیں، اس طرح چناو ¿ کے بعد نہ جیتنے والا پر سکون رہتاہے نہ ا±سے چیلنج کرنے والے کو چین آ تا ہے پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے ارد گرد کھڑے لوگ بھی اسے مسلسل اکساتے رہتے ہیں کہ پیچھے مت ہٹنا گویا۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
غنیمت ہے کہ اب کے دو چار اچھی خبریںسننے کو ملیں جب ہارنے والے نے نہ صرف اپنی شکست قبول کی بلکہ جیتنے والے کے گھر جا کر اسے پھولوں کے تحفے کے ساتھ کھلے دل سے مبارکباد بھی دی اور اس مثبت رویہ سے اپنی ہار کو جیت میں بدل دیا، اب یہ چناو¿ کے ہنگامے کچھ دن اسی طرح ماحول کو گرمائے رکھیں گے میڈیا اور خصوصاََ سوشل میڈیا میں مزے مزے کے تبصرے پڑھنے اور سننے کو ملیں گے، مجھے تو کئی ایک عمدہ اور دلچسپ تبصرے پڑھنے کو مل رہے ہیں لیکن وٹس ایپ کے ایک گروپ میں ایک تبصرے نے تو عجب لطف دیا۔ ” اگر محبت میں چناو¿ کا موسم ہوتا تو میں دھاندلی کر کے تمھیں جیت لیتا، “ سیانے کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے تو دھاندلی بھی جائز قرار دی جاسکتی ہے، ہمارے ہاں چناو¿ کے موسم میں ” ہار،جیت اور دھاندلی“ تینوں ساتھ چلتے ہیں، بلکہ بعض منچلے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہارنے کا کوئی تصور نہیں ہے
بس ایک جیت جاتا ہے دوسرے کے ساتھ دھاندلی ہو جاتی ہے اور ہم ہنگاموں کے رسیا گھروں سے نکل پڑتے ہیں اس دوران ایک اور مزے کی پوسٹ بھی نظر سے گزری ، یہ ایک بلٹ ٹرین کی تصویر پر وائس اوور(صوتی کمنٹس)ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ یہ بلٹ ٹرین ان ممالک کے لئے بنی ہوتی ہے جہاں لوگوں کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں توکہیں کچھ بھی تماشا ہو رہا ہو تو آدھا گاو¿ں اسے دیکھنے چلا جاتا ہے اور اگر کوئی ڈرائیور گاڑی بیک کر رہا ہو تو پندرہ آدمی ” آنے دے ۔ آنے دے “ میں لگے ہوتے ہیں، ہمارے ہاںہر شخص اس کام کو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے جو اس کا نہیں ہوتا، ان بے معنی کی مصروفیات میں ہم اپنے چاروں اور پھیلی ہوئی نیچر کی اس خوبصورتی کو دیکھ نہیں پاتے جو ہمیں اضطراری کیفیت سے نجات دلا کر پر سکون بنادیتی ہے، اب ہم چاندنی راتوں،بہار اور سرسوں کے پھولنے کاذکر محض گیتوں میں ہی سن سکتے ہیں کیونکہ انہیں دیکھنے کی نہ ہمیں فرصت ہے نہ دماغ، ، اور کچھ دن میں پھاگن کا مہینہ شروع ہورہا ہے جس کی پہلی علامت سرسوںکا پھولنا ہی ہے،کھیتوں کھلیانوں میں جہا ں سبزے کی بہار نظر آنا شروع ہوتی تھی وہاں اب دور دور تک سرسوں کے پھولوں نے خوب میلے لگائے ہوئے ہیں ،اس کا ایک بہت اچھا نظارہ موٹر وے پر پشاور سے اسلام آباد جاتے ہوئے سر شار کر دیتا ہے ،چناو¿ والے دن سے ایک دن پہلے میں نے یہ نظارہ دیکھا ہے میں کئی دنوں سے اسلام آباد جانے کا پروگرام بنا رہا تھا،مگر کچھ میری اور کچھ
برخوردا ر سید ذیشان کی مصروفیات آڑے آ رہی تھیں، سابق گورنر خیبر پختونخوا کمانڈر خلیل الڑحمن سے وعدہ بھی کر لیا تھا کہ مل کر ایک دوست کو شادی کی مبارکباد بھی دیں گے مگر کسی طور پروگرام نہیں بن رہا تھا لیکن جب مجھے برخوردار عمار عامر نے بتایا کہ دوست مہرباں میجر عامر کی طبیعت ناساز ہے تو میںفوراََ چل پڑا، ہر چند اس خبر کی وجہ سے میں قدرے مضمحل تھا مگر موٹر وے کے دونوں جانب ما گھ کی نرم خنک ہوا میں ناچتے ہوے سرسوں کے شوخ و چنچل پھولوں کے خوبصورت نظارے میری ڈھارس بندھا رہے تھے ویسے بھی میں نے اس دوست ِ مہرباںکے ساتھ مل کر دریائے سندھ کے کنارے ایستادہ نیسا پور میں ان گنت ایسی شامیں منائی ہیں جب جھیل کے پانی سے چودھویں کا اجلا اجلا چاند طلوع ہورہا ہوتا تھا‘ جسے دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر ایک دلربا مسکراہٹ پھیل جاتی تھی،دوستوں کی ذرا سی تکلیف اور پریشانی کا سن کر بے قرار ہونے والے دوست کی طبیعت کی ناسازی کا سن کر میں نے سید ذیشان کو کہہ دیا کہ سب کام تج کر پہلے ہمیں اسلام آباد پہنچاو¿، اگر چہ برخوردار عمار عامر نے فون کر کے کہہ دیا تھا کہ الحمدللہ اب پاپا بالکل ٹھیک ہیں مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ ” شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘ ‘ ( سننے میں اور دیکھنے میں فرق ہو تا ہے، ) اس لئے جا کر دیکھا ملاقات ہوئی،بات ہوئی انہیں خوش و خرم اور تر و تازہ دیکھ کر اطمینان ہوا، ان کے کمرے میںان کی بھانجی لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر سمیت ان کی سراپا محبت فیملی موجود تھی، میں نے عمار عامر کو کہا کہ ماشاللہ میجر عامر تو خاصے تازہ دم ہیں، کہنے لگے یہ سب آپ کے آنے کی وجہ سے ایسا ہوا، میں جانتا ہوں کہ میجر عامر کو رونق میلا اچھا لگتا ہے اپنی فیملی اور اپنے دوست ہی ان کی اصل ” دوا“ ہیں،سچی بات یہی ہے دوستوں کے ساتھ بتایا ہوا ایک ایک لمحہ سرشار کر دیتا ہے فراز نے درست کہا ہے کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والااس لئے دوست کے چناو¿ میں بھی احتیاط بہت ضروری ہے مادھو رام جوہر نے کہا ہے نا
دوست دو چا ر نکلتے ہیں کہیں لاکھوں میں
جتنے ہوتے ہیں سوا اتنے ہی کم ہوتے ہیں