ایک طرف سیاسی محاذ پر خاسی گہما گہمی ہے بلکہ ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لگتا ہے یار لوگ پوری طرح چارج ہیں اور کسی منچلے نے خوب کہا ہے کہ ”پہلے انتخابات ہو نہیں رہے تھے اور اب ختم نہیں ہو رہے“ چلئے یہ ہنگامہ بھی لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے یہ بھی ضروری ہے‘ ویسے بھی گرو جی نے بہت پہلے کہہ دیا ہے کہ ”
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ ئ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سب ٹھیک ہی لگتا ہے کیونکہ اس وقت چھوٹی سکرین سے لے کر بڑی بڑی شاہراؤں تک ہر سو چناؤ کے جو آفٹر ایفیکس دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں نہی کی گونج اور انہی کا شور ہے اور شور بھی ایسا کہ اپنی آواز سننے کو بھی ہماری اپنی سماعتیں ترس رہی ہیں، اسی دوران ایک سیانے کی بات دل کو بہت ڈھارس دیتی ہے کہ اگر آپ ہسٹری کی کلاس میں جائیں توبادشاہوں، حکمرانوں اور صاحبان اقتدار کے بارے میں اس طرح پڑھایا جاتا ہے کہ سکندراعظم کہتا تھا، ظہیر الدین بابر کہا کرتا تھا اور شہنشاہ اکبر نے کہا تھا لیکن جب آپ اردو ادب کی کلاس میں پہنچتے ہیں تو کانوں میں یہ آواز یں آتی ہیں، میر تقی میر ؔ نے کہا ہے، اسد اللہ خان غالبؔ کہتا ہے اور علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے،گویا دنیا سے جانے والے بادشاہ،سیاسی زعماء اور صاحبان اقتدار کے بارے میں ماضی کا صیغہ ”تھا“ استعمال کیا جاتا ہے اس کے برعکس ادب کی قلرو کے بچھڑے ہوئے زعماء کے اقوال و اشعار کے ساتھ حال کا صیغہ ”ہے“ استعمال کیا جاتا ہے، گویا وہ اب بھی یعنی بچھڑنے کے بعد بھی کہیں ہمارے آس پاس ہی موجود ہیں‘ صوفی شاعر بلھےؔ شاہ نے کہا ہے نا کہ ”بلھیا اساں مرنا نئیں گور پیا کوئی اور“ شاید یہی وجہ ہے کہ اب جب کہ شور بڑھتا جارہا ہے تو سیاست کی اس گرم بازاری کے موسم میں کچھ ادب دوستوں نے ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے کار ِ ادب کے چلن کو عام کرنے اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کے حوالے سے اس شہر گل فروشاں پشاورؔکے سارے موسموں کو بہار آگیں کرنے کی سعی شروع کر دی ہے‘ میں نے ماحول کے توازن کی بات جان بوجھ کر کی ہے کیونکہ سیاست کا رونق میلا بھی از حد ضروری ہے مگر سماج کو یک رخا بھی نہیں رکھا جاسکتا تبھی تو استاد جگر مراد آبادی نے بھی کہا ہے
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
گویا سماج میں ہر شخص کو اپنے حصے کی شمع جلانا پڑتی ہے، میں نے ادب اور کتاب کلچر کو پروان چڑھانے کے حوالے سے جن ادب دوستوں کی بات کی ہے وہ خود کو رضا کاران ادب کہتے ہیں اور یہ سب رضاکار دوست ِ عزیز محمد آصف ریاضؔ کی ”دوستی ویلفیئر آرگنائزیشن“ سے جڑے ہیں جو اس سے پہلے بھی پشاور کے شہرِ ہفت زباں میں دو بار شاندار اور یاد گار ”ادب میلے“ ترتیب دے چکے ہیں، پہلا میلہ تین روزہ تھا تو دوسرا پانچ روزہ اورپشاور شہر اور خیبر پختونخوا کے قرب و جوار سے ان میلوں کا حصہ بننے والے تشنگان ادب کی بے پناہ دلچسپی کے پیش نظراس سال بھی فروری کے اس ماہ ِ محبت کی 21 ویں صبح سے تیسرے گیارہ روزہ پشاور ادبی میلہ کا آغاز کر رہے ہیں جو مارچ کی دوسری شام تک جاری رہے گا، دوستی کے ”پرورش ِ لوح و قلم“ کے جذ بے سے مملواس گیارہ روزہ میلے کو ”تیسرادوستی پشاور لٹریچر فسٹیول“ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اورشب روز جن رضا کاران ادب نے محمد آصف ریاض کا بلا معاوضہ ساتھ دینے‘ اپنا وقت بہترین صلاحیت اور بے لوث خدمات پیش کی ہیں ان میں عرفان خان، محمد حمزہ،محمد ریاض، اسلم میرؔ۔اعجاز خان، الطاف قادر، سید حنیف رسول کاکا خیل،سلما ن بنگش،وقار علی شاہ، کائنات حمید،سیما آفریدی، ندیم خان اورمعز ملک شامل ہیں، ان گیارہ دنوں میں مختلف ہالز میں ہونے والی اردو انگریزی اور دیگر پاکستانی زبانوں میں 150 سے زیادہ ادبی نشستوں میں پینل ڈسکشن۔کتب کی رونمائی،کتب کے موضوعات پر گفتگو، صاحبان ِ کتب اور مختلف جرائد میں شائع ہونے والے تحقیقی اور تنقیدی مضامین لکھنے والے لکھاریوں سے مکالمے، ادبی ورکشاپس، فری شارٹ لینگویج کورسز۔ علامہ اقبالؒ کے انگریزی خطبات ”تجدید ِ فکریات اسلام“ پر گفتگو، شعر،افسانہ، تحقیق، تنقید کے مختلف سیشن، مشاعرے مباحثے،حجرہ میرؔ (اسلم میرؔ) میں غیررسمی ادبی اکٹھ، ایک شام ناصر علی سیّد کے نام،، قبلہ ایاز،، پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی، ڈاکٹر یار محمد مغموم، ڈاکٹر لطف اللہ خٹک، ڈاکٹر شجاع احمد،عزیز اعجاز اور اقبال سکندر کے کلیدی خطبات کے ساتھ خاکے،مختصر ڈرامے، مصوری کی نمائش، کہانی ٹائم، بک سٹال، فوڈ کورٹ اور جانے کیا کیا اس فیسٹیول میں شامل ہے،مجھے یاد ہے کہ دوسرے دوستی پشاور لٹریچر فیسٹیول کی کامیابی پر قومی اخبارات اور جرائد نے تبصرہ کرتے ہوئے موضوعات اورپیشکش کے لحاظ سے کم وسائل کے باوجود ملک کے دوسرے شہروں میں ہونے والے تمام ادبی میلوں سے زیادہ بڑا، پر کشش اور جدید حسیات سے پشاور اور خیبرپختونخوا قلم قبیلہ کی شرکت اور دلچسپی سے اب کے بھی یہ ادبی میلہ بھی نہ صرف پشاور اور خیبر پختونخوا کا سافٹ امیج سامنے لائے گا بلکہ نئے افق تلاش اور تراش کر ایک ایسی نئی ادبی تاریخ بھی رقم کرے گا جس کی لوح پر قابل اؔجمیری کا شعرجگر جگر کررہا ہو گا۔
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے