سائفر کیس، ایف آئی آر ہو گئی تو بندہ اٹھا لو، یہ افسوسناک ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت 11 مارچ تک ملتوی کردی جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی آر ہو گئی تو بندہ اٹھا لو، یہ افسوسناک ہے۔

منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس کے فیصلے کے خلاف دائر کی جانے والے اپیل پر سماعت کی۔

پراسیکیوٹرز کی استدعا مسترد

سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے سپیشل پراسیکیوٹرز حامد علی شاہ اور ذوالفقار نقوی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے استدعا کی کہ کل ہی ہمارا نوٹیفکیشن ہوا ہے تیاری کیلئےوقت دیا جائے، ابھی کیس کی پیپر بک تیار نہیں ہوئی، کیس ایک مرتبہ شروع ہو گیا تو غیر ضروری التوا نہیں مانگا جائے گا، مجھے پہلے اس کیس کے تمام ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے۔

تاہم، عدالت عالیہ نے پراسیکیوٹر کی استدعا کو مسترد کر دیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ یہ دلائل شروع کرلیں کون سا ایک دن میں دلائل مکمل ہو جانے ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمیں کیس کی تیاری کے لیے وقت درکار ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے پاس دن ہیں آپ تیاری کر لیجیے گا جبکہ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آج آپ کچھ حقائق تو ہمارے سامنے رکھنے دیں۔

بانی پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل

بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر واضح کیا تھا اس میں التوا نہیں ملے گا، مجرمان کو اس کیس میں مختلف دفعات کے تحت سزائیں سنائی گئیں ، مجرمان کو سیکشن 382 کا فائدہ دیا گیا ہے، بانی پی ٹی آئی کو 15 اگست کو گرفتار کیا گیا جبکہ شاہ محمود قریشی کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ طلبی کا پہلا نوٹس 30 نومبر 2022 کو جاری کیا گیا، سائفر کی آمد اور غلط استعمال سے متعلق انکوائری کی گئی، 28 مارچ کو بنی گالہ میٹنگ کو سازش قرار دے کر مرکزی ملزم قرار دیا جاتا ہے، 15 اگست 2023 کو مقدمہ کا اندراج ہوا، مبینہ جرم کے 17 ماہ بعد مقدمہ درج کیا گیا۔

وکیل نے کہا کہ دفتر خارجہ کی دستاویز تھی جس کے بارے میں کہا گیا کہ غلط استعمال اور ٹوئسٹ کی گئی، اس کیس میں مدعی یوسف نسیم کھوکھر سیکرٹری داخلہ بنے، یہ کیس تو وزارت خارجہ کا تھا تو انہیں شکایت کنندہ ہونا چاہیئے تھا، سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا ایف آئی اے نے بیان ریکارڈ کیا، ایف آئی اے نے اپنے ہی ملزم کا سٹیٹس ملزم سے تبدیل کر کے گواہ کا کر دیا۔

وکیل نے کہا کہ جس روز 161 کا بیان ریکارڈ ہوا اسی روز 164 کا بیان ریکارڈ کرایا گیا، اس کو وعدہ معاف گواہ بھی نہیں کہا جا سکتا، بانی پی ٹی آئی ، شاہ محمود، اعظم خان اور اسد عمر کو ملزم بنایا گیا ، اسد عمر نے درخواست ضمانت دی تھی زیر التوا رہی پھر واپس لے لی، 164 کے بیانات مجسٹریٹ کے سامنے اعظم خان کے ریکارڈ ہوئے۔

جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ کیا 164 کی ضروریات پوری ہوئیں ؟ جس پر وکیل نے کہا کہ میری نظر میں پوری نہیں ہوئیں ، اسد عمر اور اعظم خان کو درست خانوں میں بھی نہیں ڈالا ،  ایف آئی آر کہتی ہے اعظم خان ملزم ہے چالان کہتا ہے وہ گواہ ہے ، کسی ملزم کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا قانون میں ایک طریقہ کار طے ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدرنے کہا کہ اعظم خان ملزم تھا گواہ کیسے بنا پراسیکیوشن ہی بتا سکتی ہے، اعظم خان پہلے جون میں لاپتہ ہوا پھر پٹیشن فائل ہوئی ایف آئی آر درج ہوئی۔

جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ سب کچھ کیس کا حصہ ہے ؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ یہ کیس ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے وہ کیوں نہیں ہے کیونکہ ہم وکیل ہی نہیں رہے تھے، اعظم خان کے 164 اور ٹرائل کے دوران والے بیان میں فرق ہے۔

کیا اعظم خان پر جرح ہوئی؟ جسٹس میاں گل حسن

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا اعظم خان پر جرح ہوئی؟ جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ ہم نے نہیں کی، ڈیفنس کونسل حضرت یونس نے کی۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ڈیفنس کونسل نے اعظم خان کے مبینہ اغواء سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا؟ جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ نہیں، یہ سوال نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کسی کو ڈیفنس کونسل مقرر کیا جاتا ہے تو اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوتی ہے جبکہ جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ کیا اسٹیٹ کونسل نے تمام حقائق جانتے ہوئے بھی اس متعلق سوال نہیں کیا؟، بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ڈیفنس کونسل نے 48 گھنٹوں میں 21 گواہوں پر جرح مکمل کی۔

جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ کیا ڈیفنس کونسل مقرر کرنے کیلئے کوئی عدالتی آرڈر کیا گیا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ سکندر ذوالقرنین ایک دن پیش نہیں ہوئے اور سرکاری وکیل مقرر کر دیئے گئے،  شاہ محمود قریشی کے وکیل انتخابی مہم کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے تھے۔

ایف آئی آر ہو گئی تو بندہ اٹھا لو، یہ افسوسناک ہے، چیف جسٹس عامر فاروق

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ گرفتاری کے حوالے سے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، عدالتوں نے کہا کہ اگر انتہائی مضبوط ثبوت اور واضح شواہد ہوں تو گرفتار کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گرفتاری کے کچھ تقاضے ہیں، اس عدالت کی بھی ججمنٹس ہیں، یہ غلط طریقہ ہے کہ ایف آئی آر ہو جائے تو بندہ گرفتار کرنا ہے، مہذب دنیا میں پریکٹس ہے کہ پہلے تفتیش اور انکوائری کیلئے بلایا جاتا ہے، اگر کوئی چیز ریکور کرنی ہو تو پھر الگ صورتحال ہوتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر میں اُسی روایتی انداز میں الزامات لگائے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 1960 اور آج کی ایف آئی آر اٹھا لیں کوئی فرق نہیں ہو گا، کلہاڑے کی جگہ کلاشنکوف آ گئی لیکن محرر کا مائنڈسیٹ ابھی تک تبدیل نہیں ہو سکا، نیب، پولیس یا ایف آئی اے ہو، ہمارا مائنڈ سیٹ نہیں بدلا، اگر کوئی شخص تفتیش میں تعاون کرے تو اس کی گرفتاری کی ضرورت نہیں ہوتی، مائنڈسیٹ یہ ہے اگر ایف آئی آر ہو گئی تو بندہ اٹھا لو، یہ افسوسناک ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ یہ کوئی عام ایف آئی آر نہیں، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس اپیل کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ کیس کے میرٹس کیا ہیں، دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیس کو کس انداز میں چلایا گیا، مجھے دلائل مکمل کرنے کے لئے ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہوگا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ اتنا آسان نہ لیں اور آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کے ساتھ آئیں، ہم اتنی آسانی سے آپ کی جان نہیں چھوڑیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ سپیشل قانون ہے اور آپ نے ہماری معاونت کرنی ہے۔

بعدازاں، عدالت نے اپیلوں پر سماعت 11 مارچ تک ملتوی کر دی۔