سائفر کیس؛ عمران خان کی تو سیاسی تقریر تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد: سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ سائفر کیس؛ عمران خان کی تو سیاسی تقریر تھی اور شاہ محمود کی تقریر کا سر پیر ہی سمجھ نہیں آیا۔

ہائیکورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اپیل قابل سماعت ہونے اور اپیل کے میرٹس پر اکٹھا فیصلہ کریں گے۔


بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ عمران خان اور شاہ محمود پر الزام ہے 28 مارچ 2022ء کو بنی گالہ میٹنگ میں سازش تیار کی۔

سلمان صفدر نے کیس میں لگے الزامات پڑھ کر سنائے اور کہا کہ بنیادی طور پر چار قسم کے الزام عائد کیے گئے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے سائفر کو ٹوئسٹ کیا اور اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا، پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو ہدایات جاری کیں کہ میٹنگ منٹس کو ٹوئسٹ کیا جائے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ غیر قانونی طور پر سائفر ٹیلی گرام کو اپنے پاس رکھا، سائفر سیکیورٹی سسٹم بھی کمپرومائز کیا گیا، سائفر کے متن کو پبلک کیا گیا، سائفر ٹیلی گرام کے متن میں رد و بدل کرکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔


سلمان صفدر نے شاہ محمود قریشی کی جلسے میں 27 مارچ کی تقریر کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ شاہ محمود قریشی پر صرف معاونت نہیں، سازش اور اشتعال انگیزی کا الزام بھی لگایا گیا، شاہ محمود قریشی کو صرف چار لائنوں پر دس سال قید کا فیصلہ سنایا گیا۔

تقریر کا متن سن کر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ مجھے تو اس کا سر پیر ہی سمجھ نہیں آیا، اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ اِسی تقریر کی بنیاد پر شاہ محمود قریشی کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔

پھر وکیل سلمان صفدر نے بانی پی ٹی آئی کی تقریر عدالت میں پڑھ کر سنائی اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ تو سیاسی تقریر تھی۔

سلمان صفدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر سائفر کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنے کا الزام لگایا گیا، عدالت نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا اور غفلت بھی قرار دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دونوں الزامات کیسے ہو سکتے ہیں؟ جان بوجھ کر کیا ہو گا یا غفلت ہوگی۔

وکیل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر میٹنگ میں سازش تیار کرنے کا الزام لگایا گیا، جس جلسے میں تقاریر کی گئیں وہ 27 مارچ کو ہوا، جس میٹنگ میں سازش کی تیاری کا الزام ہے وہ 28 مارچ کو ہوئی، یہ دلچسپ ہے کہ تقریریں پہلے ہوگئیں اور سازش بعد میں تیار ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے 1947ء سے گورا جو قانون بنا گیا اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ اس میں تبدیلی نہیں کرسکتے ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جس قانون کو ہم چھیڑتے ہیں وہ خراب کر دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹ ڈاکومنٹ کو سیل کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ پبلک میں نا آئے ہم پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ وہ کمیونی کیشن کیا تھی؟

وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ تو ہمیں بھی نہیں معلوم، ہم نے وہ ڈاکومنٹ نہیں دیکھا لیکن کوڈ، ڈاکیومنٹ یا دستاویز کچھ بھی کمیونی کیٹ نہیں ہوا، آرمڈ فورسز، ممنوعہ جگہوں اور غیرملکی طاقتوں کا اس پورے کیس میں لنک مسنگ ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ قانون کے مطابق غیرملکی طاقت کا بتانا ضروری ہے؟ اُس سائفر میں کمیونی کیشن کیا ہے؟ واشنگٹن سے ایک شخص نے ایک چیز بھیجی وہ کیا ہے؟ اس شخص نے بتایا تو ہوگا نا کہ کیا چیز بھارت کے ہاتھ لگ گئی تو سیکیورٹی سسٹم متاثر ہوگا، کیا سائفر ٹرائل کورٹ کے جج کو دکھایا گیا؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ نہیں دکھایا گیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پراسیکیوٹر صاحب پھر ہمیں کیسے پتا چلے گا؟

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایک طرف کہتے ہیں بانی پی ٹی آئی نے سب کچھ پبلک کر دیا، دوسری طرف کہتے ہیں کہ سائفر دکھایا تو پبلک ہو جائے گا۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کی بتائی گئی باتوں میں خفیہ رکھے جانے والی تو کوئی بات نہیں، اب ہمیں یہ تو بتا دیں کہ اُس سائفر میں ایسا لکھا کیا ہے؟  وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے سائفر دیکھا نہیں اس لیے بتا نہیں سکتا کہ کیا لکھا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پھر ہم پراسیکیوشن سے اس متعلق معلوم کر لیں گے۔

بعدازاں سائفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، کل بھی بیرسٹر سلمان صفدر دلائل جاری رکھیں گے۔