ادب و ثقافت کو فروغ دینے کےلئے پشاور میں واحد بڑا تفریحی مرکز نشتر ہال ہے 80 کی دہائی کے وسط میں اسکی تعمیر مکمل ہوئی اور ایک معروف و معتبر سیاسی سماجی اور ادب و ثقافت سے جڑے ہوئے پشاور ی سپوت سابق گورنر پنجاب سردار عبد الرب نشتر کے نام پر اس مرکز کا نام نشتر ہال رکھاگیا‘ہر چند اسکی تعمیر کا سبب اس وقت کے گورنر سرحد ( خیبر پختونخوا)فضل حق کا پشاور عجائب کے گھر کے پیچھے واقع اباسین آرٹس کونسل کے دفتر اور اوپن ائیرہال کا دورہ تھا جس کے بعد انہوں نے موجودہ نشتر ہال کی تعمیر کےلئے اباسین آرٹس کونسل کو فنڈز مہیا کئے جو بعد ازاں پی ڈی اے کو منتقل کر دئیے گئے تاکہ وہ اسے اپنی نگرانی میں مکمل کرائے، اس کے بعد کی کہانی میں مختلف موڑ آئے اور اباسین آرٹس کونسل پشاور کو دفتر کےلئے ا س کے ا حاطہ میں دو ایک کمرے تو ضرور دئیے گئے لیکن باقی کا انتظام و انصرام محکمہ ثقافت نے ایک نو تشکیل کردہ سرحد آرٹس کونسل کے سپرد کر کے اباسین آرٹس کونسل کو ایک طرح سے بے دخل کر دیا تھا، ا س ادبی و ثقافت کے بڑے مرکز میں سرگرمیوں کا آغاز اس وقت کے سیکرٹری کلچر احمد نواز شنواری کی دلچسپی سے ایک عالی شان میوزک شو سے ہوا ، چونکہ مجھے اس تاریخی شو کی نظامت کا اعزاز حاصل ہو ا تھا تو اسے یادگار بنانے کی اپنی سی بہت سعی کی، اس کےلئے مقامی مقبول ترین فنکاروں مہ جبیں قزلباش اور گلریز تبسم کے ساتھ ساتھ لاہور سے معروف و مقبول فنکار فریدہ خانم اور مہدی حسن کو بھی بلایا، جس کے بعد نشتر ہال تفریحی سرگرمیوں کےلئے کھول دیا گیا تھا،کئی نجی تنظیموں نے ایک تواتر سے میوزک شوز کئے، کچھ عرصہ کےلئے یہاں ہونےوالے شوز اور ڈراموں کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری ایک بار پھر اباسین آرٹس کونسل کو سونپی گئی ان دنوں نشتر ہال میں صاف شفاف اور اپنے صوبے کی تہذیبی روایات کے مطابق ثقافتی سرگرمیاں ہوئیں مگر ایک بار پھراباسین کوبے دخل کر دیا گیا جس کے بعد کچھ ایسے شوز بھی پیش ہوئے جن کے خلاف اخبارات میں شور مچا تھا، تاہم اسی نشتر ہال میں کئی ایک بہت شاندار اور یادگار شوز اور ڈرامے بھی ہوئے، مجھے اس لئے بھی ان سب کا بخوبی علم ہے کہ نشتر ہال کا انتظام و انصرام جس ادارے کے بھی ذمہ رہا ایک زمانہ تک ان سارے شوز کی
نظامت کا اعزاز ایک تواتر کے ساتھ مجھے ہی حاصل رہا،سب سے بڑا اور یاد گار شو فاطمید فاو¿نڈیشن کا تھا جس میں لیجنڈری فنکار دلیپ کمار ( یوسف خان) اور سائرہ بانو نے بھی شرکت کی اور جس کی نظامت بھی میرے ہی حصے میں آئی، بلکہ جن شوز میں اداکار محمد علی،مصطفےٰ قریشی، عابدہ پروین، ترنم ناز، فریحہ پرویز، عارفہ صدیقی، ابرار الحق،حمیرا ارشد اور پشتو فلموں کے کم و بیش سارے فنکاراور فنکاراو¿ں کے شوز کا بھی ہوسٹ میں ہی تھا ،ایک یادگار شو ا نڈین ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کے اعزا ز میں بھی اس نشتر ہال میں میری نظامت میں ہوا، پھر فرنٹیئر آرٹ پروموٹرز نے پشاور سٹیج کو اعتبار دلانے کےلئے نہ صرف لاہور سے ایک ڈرا مہ’ کیسی بیوی کیسا شوہر ‘پوری ٹیم کے
ساتھ منگوایا اورپشاور کی تاریخ میں پہلی اور اب تک آخری بارمسلسل نو دن میں دس شوز کروائے بلکہ پھر یکے بعد دیگرے کئی پشتو ڈرامے سٹیج کئے جن کے شوز پورا پورا ہفتہ جاری رہے، اس تنظیم کے سیکرٹری معروف صحافی ، سپورٹس جرنلسٹ اور کئی کتابوں کے مصنف امجد عزیز ملک اور تنظیم کا صدر ’میں‘ تھا، پھر نشتر ہال بوجوہ سات آٹھ سال تک ثقافتی سرگرمیوں کےلئے کسی تنظیم کو میسر نہ رہا تو فنکاروں کو نشتر آباد کا رخ کرنا پڑا اور وہاں جو ہوا سب کے سامنے ہے،اچھی بری ہر طرح کی ٹیلی فلمز بنیں ، البتہ اباسین آرٹس کونسل پشاور نشتر ہال سے عملاً بے دخل ہونے کے باوجود اپنے محدود وسائل میں فنون لطیفہ کے چار شعبوں ادب، موسیقی،آرٹ اور ڈرامہ میں سارا سال مسلسل کام کرتی رہی اور کر رہی ہے، اس میں آرٹ کے حوالے سے گل جی ایوارڈز، ایس ایس حیدر ایوارڈز، موسیقی کے کئی ایک شاندار پروگرام،سٹیج ڈرامہ اور ادبی محافل جن میں اردوپشتو اورہندکو تینوں زبانوں میں مشاعرے ، کتابوں کی رونمائیاں ، شخصیات کے ساتھ شامیں، تعزیتی ریفرنس اور ہر سال تینوں زبانوں میں چھپنے والی کتابوں پر ایوارڈز دینا بھی شامل ہے، اس قصہ کے چھیڑنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ گزشتہ روز ایک اہم میٹنگ میں جب اباسین آرٹس کونسل سے جڑے کچھ دوست ان چار معتبر شعبوں میں اباسین کے فعال کردار کا ذکر کر رہے تھے تو معلوم ہوا کہ کچھ زعماءنے ان کے بارے میں کبھی سنا ہی نہیں، یہ بات احباب کے لئے لاکھ حیرت کا سبب سہی مگر خواجہ یاور نصیر کا کہنا بھی بجا تھا کہ اباسین آرٹس کونسل کی تما م تر پر ہجوم سرگرمیوں کا انعقاد اپنی جگہ بہت معتبر سہی مگر ان سرگرمیوں کی پری اور پوسٹ پبلسٹی جس طرح اور جس پیمانے پر ہونی چاہئے تھی شاید نہیںہو پائی، لیکن شنید ہے کہ اب ایک بار پھر صوبہ بھر میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کی غرض سے کچھ عمدہ اقدام کے لئے سوچا جارہا ہے اور اگر ایسا ہے تو اسے ایک نیک شگن قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ پاکستان کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے ادبی اور ثقافتی مراکز میں بھی حکومتی چھتری تلے سارا سال بڑے پیمانے پر کئی ادبی اور ثقافتی میلے ہوتے رہتے ہیں، مگر پشاور یا صوبہ کے دیگر چھوٹے بڑے مراکزمیںادبی یا ثقافتی تنظیمیں اپنے طور پر تو تقریبات کا انعقاد کرتی رہتی ہیں مگر حکومت کی سرپرستی سے محروم ہیں، جب تک اعجاز احمد قریشی صوبے کے چیف سیکرٹری تھے میں سمجھتا ہوں ادب و ثقافت کے حوالے سے وہ ایک سنہرا دور تھا مگر ان کے بعداونچے ایوانوں میں کم کم ہی ادب اور ثقافت کے طرفدار آئے، اب کلچر اور ٹورازم کے مدارالمہام بختیار خان اور ان کی ٹیم ایک بار پھر ادب و ثقافت کے فروغ کےلئے دلسوزی سے دلچسپی لے رہی ہے تو امید بندھ چلی ہے کہ شاید ایک بار پھر سے پشاور اور صوبہ کے دیگر شہروں میں ادبی اور ثقافتی بہارآ جائے، ویسے بھی چیت کا مہینہ شروع ہو چکا ہے کونپلیں پھوٹ رہی ہیں شگوفے کھل رہے ہیں ہوائیں معظر ہو رہی ہیں تو ایسے میں اگر واقعی ادب و ثقافت کے گل بوٹے بھی لہلہانے لگیں تو غالب کی بات کایقین آ جائے -
رنگ ِشکستہ صبح ِ بہار ِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن ِ گل ہائے ناز کا