سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلے پر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہو سکتے ہیں۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 20 افراد ایسے ہے جن کی عید سے قبل رہائی ہو سکتی ہے، ان 20 افراد کی رہائی کے لیے بھی 3 مرحلے ہیں جو فالو کرنے پڑیں گے، بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں، ملزمان کی رہائی کے لیے 3 مراحل سے گزرنا ہو گا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا، دوسرا اس کی توثیق ہو گی، جبکہ تیسرا مرحلہ کم سزا والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت دینا ہو گا۔
اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی اجازت دینے کی استدعا کر دی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر اجازت دی بھی تو اپیلوں کے حتمی فیصلے سے مشروط ہو گی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ جب تک فوجی عدالتوں سے فیصلے نہیں آ جاتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دے دی جائے گی۔
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کم سزا والوں کو قانونی رعایتیں دی جائیں گی، فیصلے سنانے کی اجازت اپیلوں پر حتمی فیصلے سے مشروط ہو گی۔
عدالتِ عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو عمل درآمد رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوشش کریں کہ عید سے 3، 4 دن پہلے انہیں چھوڑ دیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ جی ٹھیک ہے ہم کوشش کریں گے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ باہر نکلیں اور تھری ایم پی او کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیں۔
سپریم کورٹ نے 3 سال سے کم سزا پانے والوں کی تفصیلات طلب کر لیں اور سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے تک ملتوی کر دی۔