یادش بخیر چار پانچ دہائیاں پہلے ایک مزاحیہ ماہنامہ چاند بہت مقبول تھا اس میں مزاحیہ مضامین،دلچسپ کارٹون اور فلمی گیتوں کی پیروڈیز ہوا کرتی تھیں، کچھ عرصہ بعد ایک اور ماہنامہ ”قہقہہ“ بھی شائع ہونا شروع ہوا لیکن چاند کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی چاند کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کے ہر صفحہ پر کچھ اس ترتیب سے مزاحیہ اور شگفتہ اقوال شائع ہوتے تھے کہ ایک طرف قول ” ایک لڑکی“ اور اس کے سامنے صفحہ پر ” پیر جنگلی“ کے نام سے ہو تا تھا، دونوں قول لا جواب بھی ہوتے اور ایک دوسرے کا جواب بھی ہوا کرتے۔ ان اقوال سے ایسا مزاح تخلیق کرتے کہ گھنٹوں اس پر سوچنا پڑتا تھا، جیسے ’ کچھ مہمان صرف اپنا نصیب ہی نہیں کھاتے ہمارا دماغ بھی کھا جاتے ہیں ‘ یا کچھ لوگ اپنے نام کی مہر لئے گھومتے ہیں جہاں کھانا دیکھتے ہیںاس پر اپنے نام کی مہر لگا دیتے ہیں“ ان مزاحیہ اقوال کا سلسلہ بعد میں بھی کچھ ماہناموں میں جار ی رہا،شکیل عادل زادہ کے معروف دائجسٹ ماہنامہ ” سب رنگ“ میں تو ہری مرچیں اور دیگر عنوانات سے کئی ایک ” باکس آئیٹم“ ہوتے بیشتر کے لکھاری ابو ظفر زین ہو تے، لکھنے تو کچھ خواتین بھی لکھتی تھیں اور ایک رسالہ میں تو ” نزو “ بھی یہ اقوال لکھتے رہے لیکن وہ شگفتہ ہونے کے باوجودخاصے سنجیدہ ہوا کرتے تھے ، ویسے تو مزاح کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ سچا مزاح آنسوو¿ں کو نچوڑ کر ہی لکھا جاتا ہے،خود میں نے بھی ایک شعر میں یہی بات کہی ہے کہ
میں آ نسو و¿ں کو تبسّم میں ڈھال لیتا ہوں
کھلے گی کس پہ مری چشم ِ تر کی بے چینی
تاہم یہ مزاحیہ اقوال بہت دیر تک اپنی گرفت میں رکھتے ہیں مجھے اسی زمانے کے کئی ایک قول اب بھی یاد ہیں جن پر گزرے ہوئے مہ و سال کی ذرا بھی گرد نہیں پڑی اور مزے کی بات کہ چالیس پچاس پہلے کے پڑھے ہوئے کئی قول آج بھی اتنے ہی سچ ہیں، خصوصاً ابو ظفر زین کی تخلیق کردہ مزاحیہ سطریںتو کمال ہیں، جیسے بنک ایک ایسا ادارہ ہے جو ان لوگوں کو قرض دینے کے لئے پریشان رہتا ہے جو قرض لینے کے لئے کبھی پریشان نہیں ہوتے “ اور اس قول کی صداقت بھی کبھی مرجھاتی نہیں کہ ” پاکستان کا ہر لیڈر اپنے ملک کے لئے خون کا آخری قطرہ بہانے کی بات کرتا ہے مگر پہلے قطرے کے بارے میں پر اسرار طور پر خاموش رہتا ہے “ اس سے مجھے ابن انشا کے ایک کالم کی یہ بات یاد آئی کہ ” جاپان کے بارے میں سنا تھا کہ وہاں ہر دوسرے آدمی کے پاس کار ہوتی ہے اس لئے جب میں ٹوکیو پہنچا تو کئی دن تلاش کرنے کے باوجود مجھے وہ پہلا شخص نہ مل سکا جس کے پاس کار نہ تھی“ اسی ابن انشا کی ایک کالم میں لکھی ہوئی یہ بات بھی مجھے کبھی نہیںبھولتی بلکہ ہر سال ’بجٹ پیش کرنے کے موسم میں رہ رہ کر یاد آتی ہے کہ ” کسی دانا یا نادان کا مقولہ ہے کہ جھوٹ کے تین درجے ہوتے ہیں،جھوٹ ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار “ جیسے شفیق الرحمن نے کہیں لکھا ہے کہ ” در اصل ’ شادی ‘ ایک لفظ نہیں پورا فقرہ ہے “ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں جو کم لفظوں میں پوری ایک زندگی بھر دیتے ہیں، معروف کالم نگار جمیل احمد خان نے ایک بار کراچی ٹریفک کے بارے اپنے ایک کالم میں کمال بات لکھی تھی کہ ” کراچی کی سڑکوں پر وہ بسیں بھاگتی پھرتی ہیں جن کے ” ہارن “ کے سوا باقی کے سارے پرزے بج رہے ہوتے ہیں “ یونس بٹ نے انتظار حسین کے بارے میں لکھا ہے کہ جب مسلسل کئی برس گھر سے اپنے اخبار کے دفتر آتے جاتے ہوئے انہیں سارے راستے یاد ہو گئے تو اب انہوں نے ایک گاڑی خرید لی ہے مگر وہ جس طرح گاڑی چلاتے ہیں اس کے لئے انہیں یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ ” اب وہ ایک سڑک بھی خرید لیں “ اسی خاکے میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب وہ پیدل جارہے ہوتے ہیں تو ان کے دائیں ہاتھ میں ایک بریف کیس ہوتا ہے جسے وہ مسلسل دوسرے ہاتھ سے ٹٹولتے رہتے ہیں کہ کہیں گر تو نہیں گیا “ دوسرے پر یاد آیا کہ کہیں یہ بھی میں نے پڑھا ہے کہ اگر ہم یہاں دوسروں کا خیال رکھنے اور دوسروں کی مدد کے لئے ہیں تو یہ ” دوسرے “ آخر یہاں کیا کر رہے ہیں، اس طرح کے عمدہ اور شگفتہ فقرے اور زبانوں میں بھی ہیں چار پانچ دہا ئیاں پہلے کئی ممالک سے تب سے اب تک شائع ہونے والے انگریزی ماہنامہ ” ریڈر ڈائجسٹ “ میں بھی ایک مقبول سلسلہ ” لافٹر از دی بسٹ میڈیسن “ ( ہنسی علاج ِ غم ہے) ہوتا ہے، اس کے ساتھ مزاحیہ قول بھی مختلف صفحات میں بطور فلر لکھے ہوتے جیسے ” اگر پیسے درختوں پر نہیں لگتے تو پھر ہر بنک کی شاخیں( برانچیں) کیوں ہوتی ہیں“ یا اگر ’ گلو‘ ہر چیز کوچپکا دیتا ہے تو پھر بوتل سے کیسے نکل آتا ہے بوتل سے چپکتا کیوں نہیں “ حالانکہ انگریزی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی ” فنی لینگویج “ ہے کہ جو مرچ اتنی گرم ہو کہ زبان پر رکھتے ہی زبان کو بھی جلا دے اسے یہ ” چلی“ کہتے ہیں جب کہ چِل ٹھنڈے کو کہتے ہیںاور دن کے جس حصے میں سڑکو ں پر گاڑیاں رینگ رینگ کر چلتی ہیں اسے انگریزی میں ” رش آور “ کہا جاتا ہے اور اسی طرح شنید ہے کہ نا صر کاظمی نے عبدالحمید عدم کے پورے شعر میں محض ایک لفظ بدل کر کمال پیروڈی بنائی۔یعنی پہلے مصرعے ’ ’ شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ“ میں صر ف ’ پچھتا ‘ کو بدل دیا ۔ آپ بھی لطف لیجئے گا
شاید مجھے نکال کے ” کچھ کھا “ رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں