تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو 


 اور اب تو ہمارے شب و روز پرسوشل میڈیا کی گرفت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ موبائل فون ایک لمحہ کو بھی اگر دائیں بائیں ہو جائے تو ہم بے چین ہو جاتے ہیں لگتا ہے کہ اب یہ چھوٹی سی ڈیوائس ہمارے لئے سانس کی طرح ناگزیر ہو چکی ہے کبھی کبھی اس زمانے کے بارے میں سوچتا ہوں جب محلے کے کسی کسی گھر میں ایک آدھ ٹیلی فون ہو تا تھا جس کا نمبر سارے محلے والوں نے اپنے عزیزو اقارب کو دیا ہوا تھا بلکہ محلے سے بیرون ملک جانے والے بھی اسی نمبر سے رابطہ کیا کرتے تھے،پہلے ایک فون آتا کہ اتنے بجے ہم کال کریں گے ذرا ہمارے گھر اطلاع کر دیں اور پھر گھنٹوں فون کا انتظار کرنا پڑتا تھا کیوں کہ تب رابطہ آسانی سے بحال نہ ہو تا تھا مگر فون والے گھر کے افراد کے ماتھے پر کبھی بل نہ آتا یہی صورت ِ حال پھر اس وقت بھی دیکھنے میں آئی جب محلے کے کسی ایک گھر میں ٹیلی وژن سیٹ آ گیا تھا اور سر شام اس گھر میں محلے کے باقی گھروں سے چھوٹے بڑے ان کے ہاں پہنچ جاتے تب بھی ان کا کھلے دل سے استقبال کیا جاتاتھا، آج کی طرح لوگ تھڑ دلے نہ تھے، نئی نسل نے تو وہ زمانہ نہیں دیکھا مگر میرے نسل کے لوگ اس ساری تبدیلی کے عینی شاہد ہیں یہ درست ہے کہ ہر دور اپنے ساتھ اپنی ہی سر گرمیاں لے کر آتا ہے اور اسی کے ساتھ چلنے ہی میں عافیت ہے پھر بھی گزرے ہوئے کل کی فراغت اور آج کے دور کی مصروفیت کے درمیان کے چند سال اب صدیوں کی طرح لگتے ہیں، میرے لئے یہ بات بھی حیرانی کا باعث بنتی ہے کہ جب یہ سوشل میڈیا کے ہنگامے نہیں تھے تو شعر و ادب کے زعماء کی تخلیقی صلاحیتوں نے ان کو ہر دور میں ایک لازوال پہچان بخشی ہے،منشی پریم چند نے اپنے افسانے نمک کا داروغہ میں لکھا ہے ”دنیا سوتی تھی مگر دنیا کی زبان جاگتی تھی‘ صبح ہو ئی تو یہ واقعہ بچے بچے کی زبان پر تھا“ مجھے لگا کہ یہ سو برس پہلے کے لکھے ہوئے اس افسانے میں یہ منظر میرے آج کے دور کے سوشل میڈیا کانقشہ پیش کر رہا ہے(ویسے یہ افسانہ کل کی طرح آج بھی اتنا ہی ترو تازہ اور بامعنی ہے جس میں چہار جانب پھیلی رشوت خوری اور بد عنوانی کے ساتھ ساتھ ایک نوجوان کی فرض شناسی کا بھی ذکر ہے) اسی طرح تین سو برس پہلے میرؔ نے بھی بجا کہا تھا کہ 
 اگر چہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعر وں میں میر ؔ
 پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا 
 اپنی شعری ریاضت کے بل بوتے پر روئے زمیں کو سوشل میڈیا کی عدم موجودگی میں اپنی لپیٹ میں کیسے لیا جاسکتا ہے آج کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا مگر میرؔ نے محض کہا ہی نہیں ایسا کر بھی دکھایا ہے اور میرؔ کے شور انگیز اشعار آج بھی میرؔ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں کیا کمال لوگ تھے اسی طرح پونے تین ہزار پہلے کے فلاسفر سقراط کو زہر دے کر مارا گیا تھا اس کے بارے میں لیا قت علی عاصمؔ نے کہا ہے کہ
 ورنہ سقراط مر گیا ہوتا 
 اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں 
 زہر پی کر بھی سقراط آج یوں زندہ ہے کہ شاید ہی پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص ہو جس نے اس کانام نہ سن رکھا ہو،اس کو سزا دینے والوں کو البتہ نہ تب کوئی جانتا تھا نہ اب کوئی جانتا ہے،کل سقراط کا کیا 
ہوا یہ دعویٰ بھی آج کا پورا سچ ہے کہ ”میں ایتھنز یا یونان سے تعلق نہیں رکھتا میں تو دنیا کا شہری ہوں“ تب ذرائع ا بلاغ تو ایک طرف ذرائع آمد و رفت بھی نہ ہونے کے برابر تھے مگر ان کی سوچ اور ان کی ذہانت کا سفر ہزاروں سال سے آج بھی جاری ہے، میر تقی میرؔ کو تین سو برس پہلے بھی نہ صرف چاند میں بلکہ دیواروں میں بھی تصویریں نظر آتی تھیں، 
 چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
 منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
 اس بے بدل شاعر کو آنے والے زمانے اپنی سوچ اور تخیل کے جام جہاں نما میں صاف نظر آتے تھے آج ہم اسی زمانے میں سانس لے رہے ہیں جب دیواروں کے کان ہی نہیں آنکھیں بھی ہیں جو سنتی ہی نہیں دیکھتی بھی ہیں اور اگلے ہی پل دنیا کو دکھا بھی دیتی ہیں،گویا اب گھرکے باہر ہی نہیں اندر کی خبریں بھی آسانی سے نظر آنے لگی ہیں،کیمرے کی آنکھ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہا، اور ہر نئے دن کے ساتھ سوشل میڈیا کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے اور گزشتہ کل کے آپس میں بہت جڑے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے اب دور ہی نہیں خوف زدہ بھی ہیں کون جانے کب کوئی آپ کی پرائیویسی کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر مشتہر کر دے شاید اسی ڈر سے اب ہر شخص اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کو خود ہی سوشل میڈیا پر فوراً شئیر کر دیتا ہے تا کہ دوسروں کو زحمت ہی نہ اٹھانا پڑے، مان لیں کہ یاروں کے ہاتھ ایک اچھا شغل آیا ہوا ہے چہار جانب ایک رونق میلہ لگا ہوا ہے اپنی سرگرمیوں اور سیلفیوں کا بازار گرم ہے ساری توجہ اب اپنی طرف مبذول ہو چکی ہے شاید شیخ ابراہیم ذوق ؔکی بات سن لی گئی ہے جس نے کہا تھا۔
 رند خراب حا ل کو زاہد نہ چھیڑ تو
 تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو