محبت موسموں اور وقت کی ترتیب سے آزاد ہوتی ہے

 
موسم کے مزاج میں بہت حد تک تبدیلی آ چکی ہے اور گزشتہ کل کی بہت سی کہاوتیں اور ضرب المثال اب موسم کا ساتھ دینے سے ہچکچاتی ہیں، مجھے یاد ہے کہ بچپن میں چیت (بہار) کی بارش کے بارے میں بزرگوں سے سنتے تھے کہ اس موسم کی بارش میں گائے کا ایک سینگ بھیگا اور ایک خشک ہو تا ہے گویا بارش کا چھینٹا دو سینگوں کے درمیان کے فاصلے کو بھی نہیں پاٹ سکتا اور ختم ہو جاتا ہے مگر اب کے تو بہار کے موسم میں بارش تو ایک طرف رہی ژالہ باری بھی ایسی ہوئی کہ پہلے نہ دیکھی نہ سنی اگر چہ پہاڑوں پر تو جاڑوں کی طرح اس موسم میں بھی برف باری کے امکانات ہمیشہ رہتے ہیں لیکن میدانی علاقوں میں موسم بدل چکا ہوتا ہے‘ بہار کی معطر ہواؤں میں نمی کم کم ہوتی ہے اور بہار میں بارش کا کوئی کوئی چھینٹا ہی پڑتا ہے تبھی گائے کے خشک اور تر سینگو ں کا روزمرہ وجود میں آیا،شہنشاہ سخن میرؔ نے بھی کہا ہے کہ 
 چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
 پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
 گویا بہار میں باد باراں کا عمل دخل بس کم کم ہی ہوا کرتا تھا بس اس قدر کہ موسم خوشگوار رہے،مگر اس بہار میں ژالہ باری نے خوب میلے لگائے، پشاور جو مون سون کی پٹی سے باہر ہونے کی وجہ سے برسات میں بھی عموماً تیز بارشوں کی راہ دیکھتا ہی رہ جاتاہے مگر اب کے تو جاتی بہار کے آخری دنوں میں پشاور کے باسیوں نے دیکھا کہ پہلے مسلسل اور موسلا دھار بارش نے جل تھل ایک کر دیا اور پھر بڑے حجم کی ژالہ باری نے گلی گلیاروں اور بازاروں کو برف کی سفید چادر وں سے ڈھک دیا،یار لوگ مری کی برف باری کے موسم کی طرح مٹھیاں بھر بھر کے ایک دوسرے پر اولے اچھالتے ہوئے ٹک ٹاک بنا بنا کر سوشل میڈیا پر سجاتے رہے، لگتا ہے ژالہ باری کو بھی انتظار تھا کہ کب سوشل میڈیا کی بہار چھائے تا کہ وہ بھی اپنا روپ سروپ خوب دکھائے، سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والی ویڈیوز میں یہی کہا جاتا رہا کہ سوات
 کے پہاڑوں پر خصوصاً کالام میں غالباً سات آٹھ برس بعد اس موسم میں اتنی شدید برف باری اور بارش ہوئی، پھر چیت کی بارش اپنی دھن میں مگن برستی برستی بیساکھ میں داخل ہو گئی بیساکھ ویسے بھی بکرمی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اور ایرانی شمسی (شمسی ہجری تقویم)کیلنڈر سمیت شمالی کرّہ کے بیشتر ممالک کی تقویم کا آغاز بہار کے موسم سے ہو تا ہے، ایران میں سال کا پہلا دن (نو روز) 21 مارچ کو ہو تا ہے اور اس تاریخ کو یا پھر اس کے آس پاس اکثر اوقات بارش ہوتی ہے اس دن خصوصی پکوان بنائے اور کھائے جاتے ہیں، لیکن اب کے بکرمی تقویم کے پہلے مہینے کے پہلے دن بلکہ دوسرے اور تیسرے دن بھی موسلا دھار بارش برستی رہی، اگر چہ یہ مہینہ گندم کی کٹائی کا ہو تا ہے اور اسی مناسبت سے بیساکھی کا میلہ بھی لگتا ہے اور بارشیں گندم کی کٹائی کے راستے میں کھنڈت ڈال دیتی ہیں، اس لئے عام طور پر یہ بارشوں کا مہینہ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن میں نے کہا نا ا ب پورا کرّہ(گلوب) موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پرہے۔ گرمی اور سردی کے لئے مخصوص مہینے اب ماضی کے بر عکس مختلف انداز میں گزرتے ہیں گزشتہ دو ایک برس تو سردی کے گرم ملبوسات نکالنے کا موقع ہی نہ ملا‘گرم موسم جو ستمبر کی آمد کے ساتھ ہی لد جایا کرتا تھا وہ نومبر کے وسط تک جانے کا نام نہیں لیتا اور دسمبر جنوری میں کڑاکے کا پالا پڑتا ہی نہیں البتہ فروری سے مئی تک کسی بھی وقت موسم اچانک ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گرم کپڑوں کو پھر سے نکالنا پڑ 
جاتا ہے،ایک وقت تھا کہ کچھ پھلوں اور کچھ کچھ سبزیوں کے لئے ان کے موسم کا انتظار کرنا پڑتا تھا، مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ایک بار بیماری کے دوران جب کسی چیز کے کھانے کو دل نہیں کرتا تھا تو جس دن طبیعت بہتر ہوئی تو اپنی مادر مہرباں سے فرمائش کی کہ آج بھنڈی کھانے کو جی چاہتا ہے تو انہوں نے چمکارتے ہوئے کہا تھا ’ماں صدقے جائے اس موسم میں بھنڈی نہیں ہوتی میں اپنی ماں کے چہرے پر بے بسی کے تاثرات کبھی نہیں بھول پایا کہ اتنے دن بعد میں نے کھانے کو کچھ مانگا اور وہ مجھے نہیں دے سکی تھی۔ اب سارے پھل اور ساری سبزیاں ہر موسم میں آسانی سے دستیاب ہیں مگر ”ماں“ نہیں ہے‘ البتہ ان کا مہرباں چہرہ آنکھوں کے آس پاس ہی رہتا ہے مجھے اپنے پسندیدہ پھل امرود کے لئے بھی گرمیوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا مگر اب امرود پالا پڑے جاڑوں میں بھی آسانی سے مل جاتا ہے، کوہاٹ کے امرود گرمیوں کے موسم میں اپنی بہار دکھاتے رہے ہیں اور میری خوش بختی کہ عمدہ شاعر اور محبتی دوست محمد جان عاطف جب بھی پشاور آتے تو امرودوں کے ٹوکروں سے لدے پھندے آتے مگر موسموں کی تبدیلی کے اس عمل نے کچھ دوستوں کو بھی مصروف کر دیا ہے،اور پروین شاکر کو کہنا پڑا 
 عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب
 وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد
 البتہ کچھ احباب اب بھی ”وفادار بشرط ِ استواری“ کے کھونٹے سے بندھے ہوئے وقت کی اس تقسیم کو ذرا بھی خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی روایت کی پاسداری میں ذرا بھی بدلاؤ نہیں لا رہے، جیسے دوست ِ مہرباں غیور سیٹھی جو کئی دہائیوں سے عام دنوں میں عموماً ا ور عید کے دن خصوصاً اپنے احباب کو اپنی بے لوث محبت سے سرشار رکھتے ہیں شاید انہیں اس بات پر کامل یقین ہے کہ 
 محبت موسموں اور وقت کی ترتیب سے آزاد ہوتی ہے
 بہت برباد کرتی ہے تو خو د آباد ہوتی ہے