خیبر پختونخوا سے اب تک وہ 3 لاکھ غیر قانونی غیر ملکی باشندے واپس روانہ ہوئے جو جعلی شنا ختی کارڈ کی وجہ سے پاکستان میں رہائش کے مزے لے رہے تھے‘ پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ تجارتی معاہدوں پر امریکہ کا سخت رد عمل آ نا ہی تھا امریکہ بھلا کب چاہتا ہے کہ ایران اور پاکستان دونوں معاشی طور پر پھلیں پھولیں اور ان کی معیشت مضبوط ہو چین کے صدر کی عوام دوستی اس بیان سے عیاں ہوتی ہے کہ چینی جدیدیت میں لوگوں کی فلاح و بہبود انتہائی اہمیت کی حامل ہے چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کا ہمیشہ سے یہ خاصہ رہا ہے کہ 1949 سے لے کر اب تک اس نے عوامی فلاح و بہبود کا جو بھی منصوبہ بنایا اس میں عام آ دمی کے مفاد کو سب سے پہلے مدنظر رکھا گیا یہ کمال نہیں تو پھر کیا ہے ایک ارب اور تیس کروڑ لوگوں کو کہ جو چین میں رہتے ہیں دو وقت کی روٹی پہنچانا کار دارد ہے پھر ان کو بیماری کی حالت میں طبی امداد دلوانا ان کے واسطے تعلیم کا بندوبست کرنا ان کو شفاف پینے کا پانی فراہم کرنا ان کی آمدورفت کیلئے مناسب ٹرانسپورٹ کی فراہمی یہ سب کام کوئی خالہ جی کا گھر تھوڑا ہی ہے۔ یہ کریڈٹ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کو جاتا ہے کہ اس نے کمال تنظیمی مہارت سے پورے ملک کو عوامی خواہشات اور احساسات کے مطابق سنبھال رکھا ہے ہمارے
ملک کی سیاسی جماعتوں کو چین کی بر سر اقتدار سیاسی جماعت کی کارکردگی سے سبق لینا ضروری ہے کہ کس کمال دانشمندی سے اس نے ملک کے تمام انتظامی ڈھانچوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی لڑی میں پرو رکھا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف زہر آ لود قسم کے بیانات میں دن بہ دن شدت آ رہی ہے جس سے انتہا پسندہندوؤں کو شہہ مل رہی ہے اور بھارت کے اندر رہنے والے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے بھارت کی کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی جہاں تک پاکستان اور مسلم دشمنی کا تعلق ہے تو اس میں بس اس حد تک ہی فرق ہے کہ کانگریس پارٹی مسلمانوں سے میٹھی دشمنی کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوا کرتی تھی یعنی بغل میں چھری منہ میں رام اور اس پالیسی کا خالق گاندھی تھا۔ پشاور سمیت خیبر پختونخوا اور ملک بھر میں گزشتہ ہفتے شدید بارشیں ہوئیں اور محکمہ موسمیات کی طرف سے آج کل میں مزید بارشوں کی پیشگوئی بھی کی گئی
ہے‘ اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ نشیبی علاقوں میں ندی نالوں کی بروقت صفائی نہیں کروائی جاتی ہے اور جوں ہی بارشیں ہوتی ہیں ہماری سڑکیں نہروں کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ اگر ندی نالوں اور آبی گزرگاہوں کی بروقت صفائی ہو تو بارشوں کی صورت میں سامنے آنے والے مسائل کا سامنا نہیں ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ بارشوں اور قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جا سکتا تاہم جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ نشیبی علاقوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کر کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے اور اگر ہمارے متعلقہ ذمہ داران اسی پر فوکس کریں تو یہ ممکن نہیں کہ نقصانات زیادہ ہوں جیسا کہ پچھلے ہفتے کی بارشوں سے ملک بھر میں تقریباً ایک سو کے قریب اموات ہوئیں‘ بڑے پیمانے پر کچے مکانات کو نقصان ملا‘ لوگوں کے گھروں کی چھتیں منہدم ہوئیں اور خاص طور پر فصلوں کو ہونے والے نقصانات سے جو تباہی کسان طبقے پر آئی اس کا ازالہ کیا جانا بہت ضروری ہے۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ ہمیں ہر سال انہی حالات کا سامنا رہتا ہے تاہم باوجود اس کے ہم منصوبہ بندی کیوں نہیں کر سکتے۔ پہلی فرصت میں ندی نالوں اور آبی گزرگاہوں سے تجاوزات کا خاتمہ بھی ضروری ہے کیونکہ پانی نے تو اپنا راستہ بنانا ہے اور پھر اگر اس میں گھر بہہ جائیں اور جانی نقصان ہو تو اس کی تلافی مشکل ہوجاتی ہے۔ بے ہنگم انداز میں شہروں کے پھیلنے کو اب روکنا ضروری ہے اور اس ضمن میں مستقبل کے حوالے سے اب ٹھوس لائحہ عمل ضروری ہے۔