آج سوچا تو آنسو بھر آئے

 کچھ دن پہلے تک سیاسی محاذ پرجو ایک گہما گہمی اور جوش و خروش سا نظر آ رہا تھا اس میں کسی حد تک ٹھہراو ئسا آ تا ہوامحسوس ہو رہا ہے،خاموشی کو بھی اگرچہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ خاموشی بہت معنی خیز ہوتی ہے‘یار لوگ ان دنوں جمیل الدین عالی کے ہم خیال ہو گئے ہیں جنہوں نے کہا تھا۔
کچھ نہ تھا یاد بجز کار محبت اک عمر
وہ جو بگڑا ہے تو ا ب کام کئی یاد آئے 
اور تو اور کار ادب کا شور بھی بہت کم ہو گیا تھا لیکن ان دنوں پھر سے سب کی نگاہوں کا مرکز ادب ہی بنا ہوا ہے اگر چہ سیانے کہتے ہیں کہ ادب کا ایک کردار وقتی بھی ہو تا ہے اور جس سے سوشل میڈیا اٹا پڑا ہے یہ اور بات کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی چمک دمک کھونے لگتا ہے لیکن اس بات میں بھی دوسری رائے نہیں ہو سکتی ”کہ جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا گویا جب شعر کو کوئی بڑا شاعر یا کوئی بڑا فنکار برتتا ہے تو وہ اپنی مٹھی میں آنے والے کئی زمانوں کیلئے اپنے عہد کے خواب سنبھالے رکھتا ہے، اس کی ایک مثال وہ فلمی گیت ہیں جو فلم میں کہانی کے تناؤ کو کو کم کرنے کے لئے یا کبھی کبھی وقت کے اتار چڑھاؤ کی علامت کے طور پر یا پھر کرداروں کے میل ملاپ کو بڑھاوا دینے کے لئے فلم میں شامل کر لئے جاتے ہیں جن میں سے بہت کم یاد رہ جاتے ہیں اور اس کی وجہ بھی شاید ان کی دھن یا کمپوزیشن یعنی موسیقی ہوتی ہے البتہ جن گیتوں کو جب شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، شیلندرمجروح سلطان پوری،جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی جیسے نظریاتی لوگ میسر آئے تو ساحر کے گیت”وہ صبح کبھی تو آئے گی سے لے کر کیفی اعظمی کی۔”یا پھول ہی پھول تھے رستے میں۔۔۔ یا کانٹوں کی بھی آس نہیں۔۔نفرت کی دنیا ہے ساری، بچھڑے سبھی باری باری“ تک اگر اب بھی لہو گرماتے ہیں تو ان کے پس منظر میں ان بے بدل شعرا کی فنی ریاضت ہی کار فرما نظر آتی ہے دراصل یہ جو ادب کی قلمرو ہے،یہ جو سخن کا علاقہ ہے یہ تہذیب کی بستی ہے شائستگی کا نگر ہے، اپنے دکھ درد کو بھلا کر دوسروں کے لئے سکھ اور مسرت ڈھونڈنے والوں کا دیس ہے اس لئے یہاں کسی کو مستقل رہائش کا پروانہ بہت جانچ پڑتال کر کے اور بہت دیکھ بھال کے بعد ملتا ہے، گویا ادب کی بستی ایک طرح سے تہذیبوں کے امین شہر دہلی کی طرح ہے جس کے بارے میں شہنشاہ ِسخن میرؔ نے کہا تھا 
 ’رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے 
 سو ادب نگری کے باسی چنیدہ لوگ ہوتے ہیں،مانو یہ ہمہ وقت جاب پر رہتے ہیں، اور خدائے بزرگ و برتر نے ان کے ذمے زندگی کے بے رنگ خاکے میں محبت کے سبز،بھائی چارے کے نیلے اور سرشاری کے ارغوانی رنگ بھرنے کی ڈیوٹی لگائی ہے، گویا ادب، اپنے لوگوں 
 سے،اپنے سماج سے اور اپنے ماحول سے جڑے رہنے کا نام ہے مگرکتنی عجیب بات ہے کہ ادب کے لئے سب سے بڑا محرک یہ سماج ہے اور جب کوئی سخن ور اپنے لو گوں کی محرومی کی بات کرتا ہے ان کے دکھ درد کو موضوع بناتا ہے یا استحصالی طبقے کے خلاف ا ن کو اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دیتا ہے تو اس کے شعر کو نعرہ قرار دیتے ہوئے اسے ادب کی راجدھانی سے بے دخل کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے، یہ کام شعر و ادب کی فصیلوں پر کھڑے وہ پہرہ دار کرتے ہیں،جن کے نزدیک ادب کا کام مسرت بخشنا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ادب کی اس بورژوائی تعریف ہی نے ترقی پسند ادب کے راستوں میں بھی بہت سی رکاوٹیں کھڑی کیں اورسماج سدھار سرگرمیوں کے کام میں بھی کھنڈت ڈالی، منشی پریم چند کی صدارت میں ہونے والے انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے اجلاس سے لے کر آج تک ترقی پسند ادب کا علم اٹھاکر چلنے والوں کو قدم قدم پر ویسی ہی
 اعصاب شکن اور جان لیواسازشوں کا سامنا ہے، جن کا سامنا سو برس پہلے جنم لینے والے ایک نابغہ روزگارشاعر کیفی اعظمی اور ان کے ہمراہیوں کو کر نا پڑا تھا، کیفی اعظمی جس کے شعر کی اٹھان اور اڑان دیکھ کر ترقی پسند ادب کے سرخیل بنے بھائی (سجاد ظہیر) نے کہا تھا، ”جدید اردو شاعری کے باغ میں نیا پھول کھلا ہے، سرخ پھول“ سرخ رنگ جو زندگی کا رنگ ہے، جو لہو کا رنگ ہے، جو محبت کا رنگ ہے،جوش کا رنگ ہے، جو بیک وقت جلال کا رنگ بھی ہے اور جمال کا بھی رنگ ہے، اور یہ وہ رنگ ہے جس نے کیفی اعظمی کی اپنے لوگوں کے لئے کہی ہوئی نظموں کو گزشتہ کل کی طرح آج بھی محروم طبقہ کی آواز بنا کر ادب کی اس بورثوائی سوچ کو غلط ثابت کر دیا کہ ہنگامی ادب دیر پا نہیں ہو تا، میں نے کہا ہے نا کہ ادب کا ایک کردار وقتی بھی ہو تا ہے مگر جب اسے بڑا شاعر بڑا فنکار برتتا ہے تو وہ اپنی مٹھی میں آنے والے کئی زمانوں کیلئے اپنے عہد کے خواب سنبھالے رکھتا ہے ایسے چنیدہ شعرا میں ایک معتبر آواز کیفی اعظمی کی بھی ہے،جس کی شعر بشمول ان کی فلمی شاعری کے کل کی طرح آج بھی دل کو کہیں بہت ادر سے چھوتا ہے کیونکہ کیفی اعظمی کا شعر عصری کرب، رومان ا ور انقلاب کے ملاپ سے ایک ایساپر کیف سنگھم بنا ئے ہوئے ہے، جس طرح الہ آباد میں تین دریاؤں کا سنگھم جہاں ہر بارہ سال بعد کمبھ کا میلہ لگتا ہے جہاں آپس میں ملتے ہوئے دور سے نظر آنے والے گنگا جمنا کے دریاؤں کے ساتھ ساتھ نظر نہ آنے والے دریا ’سرسوتی‘ کی شکل میں آنے والے وقتوں تک اپنی ملاپ کی تاثیربڑھائے ہوئے ہے۔ اس کیفیت کے حامل کئی ایک خوبصورت شعر ی تصویروں میں سے صرف ایک تصویر پیش کرتا ہوں۔
آج سوچا تو آنسو بھر آئے 
مدتیں ہو گئیں مسکرائے
ہر قدم پر اْدھر مڑ کے دیکھا
ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے
دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں 
یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے
 (ہیوسٹن امریکہ میں تقدیس ادب انٹرنیشنل کی کیفی اعظمی کے صد سالہ جشن ولادت کی تقریب میں پڑھا گیا)