لکھنا اپنے عہد کی گواہی دینے کی طرح ہے،جو کہوں گا سچ کہوں گا سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا‘ اس بیانیہ کو ایک وکیل سے بہتر کون جان سکتا ہے اور وکیل بھی ایسا جسے بولنے کے ساتھ ساتھ قدرت نے لکھنے کی صلاحیت بھی ودیعت کی ہو تو اس کی ذمہ داری دوہری ہو جاتی ہے، محمد حسین وکالت کے پیشہ سے متعلق ہے اور ایک طرح دار کالمسٹ کے طور پر بھی اپنی ایک معتبر اور با وقار پہچان اور شہرت رکھتا ہے، اس وقار اور اعتبار کی وجہ اس کی وہ مسلسل ریاضت ہے جس سے ایک پل کبھی وہ غافل نہیں رہا۔ اس کی سپھلتا کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جو بھی دیکھتا ہے،اس پر بات کرنے سے پہلے اسے اپنی دانائی کی گھٹالی میں ڈال کر اور دلسوزی کی آگ پر خوب تپا کرمصلحت کی کثافتوں سے پاک کر دیتا ہے، اسی مشق سے اس کے قلم کو بے خوفی، بے باکی اور راست گوئی عطا ہوئی ہے،وہ جانتا ہے کہ جس قلم کی قسم خالقِ ارض و سما نے کتاب ِحکمت میں کھائی ہے جس کی بنا پر قلم یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ”من شاہ ِ جہانم“ سو اس کی حرمت کو کسی بھی قیمت پربے وقار نہیں کرنا ہے، محمد حسین کو بظاہر مملکت خدادا پاکستان سے گئے ہوئے ربع صدی ہو گئی ہے مگر اس کی تحریر کے شبد سطروں سے اٹھ اٹھ کر شہادت دیتے ہیں کہ حرام ہو جو اس نے ایک پل بھی اپنے وطن کو اپنی زمین کو اپنی دھرتی ماں کو اپنے دل و دماغ سے نکالا ہو‘یا اس سے بیکراں محبت کو کسی بھی طرح کے سمجھوتے کا شکار ہونے دیا ہو‘اس کی سوچ اور فکر کے سارے سوتے اپنی دھرتی کی محبت ہی سے پھوٹتے ہیں اور اس کے شب و روز کے سارے دریچے اسی ہوا کے رخ پر بنے ہوئے ہیں جو ہوا بقول ارشادؔ صدیقی ”وطن کی یادوں سے معطر ہو کر آتی ہے اور اشکوں سے منور ہو کر جاتی ہے“، اس لئے اْس کے قلم کے سارے زاویے اور اس کی ساری جولانیاں اپنے وطن کے نام ہو تی ہیں، مانو وہ سورج مکھی کی طرح پاکستان ہی کی طرف رخ پھیرے رکھتا ہے اور جاننے والے جانتے ہیں اور اس بارے میں کوئی دوسری را ئے نہیں ہوسکتی کہ محمد حسین جسمانی طور پر کہیں بھی رہتا ہو، وہ اول و آخر پاکستانی اور ایک سچا پاکستانی ہے اور اس کا دل اپنی جنم بھومی اپنی دھرتی کی محبت کی تال پر دھڑکتا ہے، اس لئے وہ بے خوف بات کرتا ہے، وہ ہمیشہ دو ٹوک بات کرتے ہوئے کسی قسم کی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ وہ محنت کش شاعر تنویرؔ سپرا کی طرح اس تجربہ سے نہیں گزرنا چاہتا جس کے بارے میں اس نے کہا ہے۔
اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی میرے ہونٹ پھٹ گئے
اظہار کا دباؤ کتنا بھی شدید ہو نہ تومحمد حسین اور نہ ہی اس کا قلم الفاظ روکنے کا روا دار ہو تا ہے۔ اسے لفظ کی طاقت کا بھرپور ادراک ہے اس لئے وہ لفظوں کے آگے مصلحت کے بند باندھنے کی بجائے انہیں ان کے فطری بہاؤ میں بہنے دیتا ہے، مجھے اس کے کالم کے ساتھ بہت سا وقت گزار کے بہت اچھا لگا، میں یہ کالم پڑھ کر بہت خورسند ہوا،محمد حسین کا کالم پہلی ہی ملاقات میں دوستی کا ہاتھ بڑھا کر پڑھنے والے کو فوراََ اپنا طرفدار ہی نہیں گرویدہ بھی بنا لیتا ہے، اس کی خوشگوار نثر ادق موضوعات اور مشکل مباحث کو کہیں بھی بوجھل نہیں ہونے دیتی اور ایک کالم کے لئے نثر کا سلیس، لطیف اور پر تاثیر ہو نا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ محمد حسین کو خوب ہے، میں بہت دیر تک اس کی من موہنی اور پرکشش نثر کی گرفت میں رہا ہوں، در اصل مجھے وہ قلمکار بہت متاثر کرتا ہے جو اپنے طورمتاثر کرنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کرتا اور محمد حسین کا نام ایسے لوگوں کی فہرست میں کہیں بہت اوپر ہے، میں نے اسے بہت قریب سے ”پڑھا“ اور پرکھا ہے، دوسروں کو سکھ دینے کے لئے اپنے آپ کو ہر طرح کی اذیت کے لئے وہ ہمہ وقت تیار رہتا ہے، اس ”پہاڑی آدمی“ (یہ خطاب شاہد کامریڈ کا دیا ہوا ہے) کی کچھ تو یہی فطرت اصلی ہے اور شاید کچھ شاہد کاؔمریڈ ہی کی دوستی کی دین ہے، شاہد کامریڈ جو اپنے ساتھ بھی چند لمحات گزارنے کا روادار نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذرا بھی دنیا دار نہیں اور جوبڑے بڑوں کو بھری محفل میں اپنی سفاک سچائی سے زیر کر دیتا ہے اور جو میری زندگی میری مرضی کہتے ہوئے اپنی شرطوں پر اپنی زندگی گزارنے کا خوگر ہے وہ اگر کچھ کچھ اپنا خیال رکھتا ہے تووہ پورے نیو یارک میں صرف ان ہی کے کہنے پر رکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ محمد حسین محض شاہد کامریڈ ہی نہیں وہ اپنے ہر دوست کے دکھ سکھ میں اسی طرح دل و جان سے شریک ہو تا ہے جس طرح وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ان کے اچھے برے موسموں میں ہنستا اور روتا ہے اور محمد حسین کے دکھ سکھ کے یہ دونوں اظہاریے اس کے خوبصورت کالم میں ڈھل کر اس کی محبت بھری فکر کی تجسیم کر دیتے ہیں، اس کے کالم جدید حسیات اور معروضی حالات کی ایک خوبصورت تصویر بناتے ہیں جس کے خد و خال کچھ تیکھے ضرور ہیں مگر یہ بھی پورا سچ ہے کہ آنے والے زمانے کے لئے اپنے عہد کی ایک سچی گواہی کے طور یہ کالم ہمیشہ زندہ رہیں گے۔یہ اور بات کہ
سو معتبر ہوئے موسم گواہی سے جس کی
اسی پہ ٹوٹ کے برسے ہیں موسموں کے عذاب