قوموں کی زند گی پر کسی کنبے، گھرانے اور خاندان کے دو اصول اثر انداز ہوتے ہیں اگر محاذ آرائی کا اصول اپنایا گیا تو تبا ہی اور بربادی آتی ہے اگر اعتماد سازی کا اصول اپنا یا گیا تو ترقی، خو شحا لی اور طاقت آتی ہے خاندان یا گھرانہ قومی عمارت کی پہلی اینٹ ہے‘انگریزی میں اس کو پہلا یونٹ کہا جا تا ہے شما لی پہاڑی علاقوں کی دردی زبانوں میں ایک مقولہ ہے ”شور شرابہ بھیڑیے کو راس نہیں آتا“ بھیڑ یا جنگلی درندہ ہے اچھی زند گی کے لئے اس کو بھی خاموش اورپر سکون رہنا پڑتا ہے پھر انسانی بستی اور بنی آدم کی آبادی کو محاذ آرائی اور لڑا ئی جھگڑا کیونکر راس آئے گا! وطن عزیز پاکستان پر اس وقت آسیب کا سایہ ہے ہر طرف سے محا ذ آرائی کی خبریں آرہی ہیں، وفاق اور صو بوں کے درمیاں محا ذ آرائی کا بازار گرم ہے‘ وفاق میں مختلف ریا ستی ادارے با ہم دست و گریباں نظر آتے ہیں، منتخب سیا سی قیا دت ایک دوسرے کے خلا ف جا نی دشمنوں کی طرح مو رچہ زن ہے، اور انتقام کی آگ بھڑ کا ئے بیٹھی ہے کسی کو کسی پر اعتبار نہیں کوئی بھی معقول اور معتبر لیڈر دوسرے لیڈر پر اعتماد نہیں کرتا‘ دکھ کی بات یہ ہے کہ دشمنی رقابت اور انتقام کی یہ آگ صر ف دلوں میں نہیں جل رہی اس آگ کے شعلے ذرائع ابلاغ پر نظر آرہے ہیں‘اس آگ سے اُٹھنے والا دھواں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے سب دیکھ رہے ہیں اگر کوئی بے خبر ہے تو سیا سی قیادت بے خبر ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جا نے گل ہی نہ جا نے باغ تو سارا جا نے ہے
حالات یہی رہے تو پھر اصلاح احوال کیسے ہو گی‘ملک کے حالات کیسے بہتر ہوں گے‘لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری موجودہ سیاسی قیادت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مثبت سوچ اپنانی ہوگی۔دسمبر 2023ء میں ہماری قیاد ت کہتی تھی کہ قوم کی پہلی ترجیح معا شی استحکام اور دوسری تر جیح دہشت گر دی کا خا تمہ ہے چھ ما ہ بعد نئے ما لی سال کا بجٹ زیر غور ہے، اب ہماری ترجیح بھا ری سود پر قرض کی تلا ش ہے
اب معا شی استحکام بھی ترجیحات کی فہرست میں نظر نہیں آتا، دہشت گردی کا خا تمہ بھی بھلا یا جا چکا ہے گویا امن کا قیام خواب ہی رہے گا۔ دو بڑے خطرات ہماری گلی کو چوں میں نظر آتے ہیں پڑو سی ملکوں سے بڑی تعداد میں دشمن کی فوج کے سول ٹھیکہ دار ترقیاتی منصوبوں میں کا م کرنے والے چینی انجینئروں اور ہنر مندوں کو نشا نہ بنانے کے لئے لائے گئے ہیں، گوادر، کراچی، وزیر ستان، گومل زام ڈیم اور دیا مر بھا شا ڈیم دشمن کی زد میں آئے ہوئے ہیں دوسرا بڑا خطرہ بھی ایسا ہے جو کتا بوں میں نہیں شہروں سے لے کر دیہات تک ہماری سڑکوں پر نظر آرہا ہے، غریب طبقہ غر بت کی وجہ سے خودکشیاں کر تا ہے معصوم بچوں کو دریا اور کچرا کنڈی میں ڈالنے پر مجبور ہواکرتا ہے‘ حیرت کی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے چوبیسویں سال ہماری قیادت 1956ء اور 1969ء کے دور میں محو خواب ہے، ہماری قیادت کو یہ نہیں معلوم کہ گورنر جنرل غلا م محمدہو، صدر سکندر مرزا ہو یا صدر آغا محمد یحییٰ خان ہو، وہ ابلاغ کے محدود ذرائع پر کنٹرول کر سکتے تھے، خبروں کو روک سکتے تھے لیکن 2024ء میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے سوشل میڈیا کا تیز تر ذریعہ مو جود ہے اس کو بند کرنا کسی بھی ڈکٹیٹر کے بس میں نہیں ہے، دنیا کے جس ملک میں حکمران طبقے نے اس حقیقت سے انکار کیا ان کا انجام برا ہو ا‘میں نے یہاں تک لکھا تو شاہ جی نے کہا کس کے لئے لکھ رہے ہو؟ میں نے کہا یہ میری خود کلا می ہے مو نو لا گ ہے اگر سچ مُچ دیواروں کے کان ہوتے ہیں تو دیواروں کے لئے لکھ رہا ہوں‘مجھے پتہ ہے محا ذ آرائی کے شوقین با ہمی اعتماد کو کبھی تو جہ نہیں دینگے آج سے 20 سال پہلے ہم بیرونی دشمن کے ساتھ تعلقات میں اعتماد سازی (Confidence building) کی بات پر زور دیتے تھے‘ سیاسی قوتوں کے درمیان اعتما د کی عمارت زمین بو س ہو گئی، حکومت کا عوام پر اعتما د نہیں، عوام کا حکومت پر اعتماد نہیں‘ آج اندرون ملک اعتما د سازی کی ضرورت ہے مگر کسی کو بھی اس ضرورت کا احساس نہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس سلسلے میں عوام اور حکومت کی طرف سے حالات کا ادراک کرنا ہو گا۔ علامہ اقبال نے 100سال پہلے کہا تھا
اے وائے نامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا