گیا رہویں تعلیمی پا لیسی 

 2025ء میں گیارہویں تعلیمی پا لیسی آنے والی ہے، وطن عزیز پا کستان کی پہلی تعلیمی پا لیسی دسمبر 1947ء میں آئی تھی نویں تعلیمی پا لیسی 2009ء میں جبکہ دسویں تعلیمی پا لیسی 2017ء میں آئی تما م تعلیمی پا لیسیوں میں تین باتیں مشترک ہیں پہلی بات یہ ہے کہ اسلا م پا کستان کا بنیا دی اور اسا سی نظریہ ہے نئی نسل کی تعلیم و تربیت اسلا می تعلیمات کی روشنی میں ہونی چاہئے دوسری بات یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنا لو جی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی قوم کے نو نہا لوں کو جدید سائنسی علوم میں کا مل مہا رت حا صل کرنے کے قابل بنا یا جائے گا، تیسری مشترکہ بات یہ ہے کہ تما م تعلیمی پا لیسیوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا‘ وجہ یہ ہے کہ تعلیمی پا لیسی وہ لو گ بنا تے تھے جنہوں نے پا کستان کا کوئی سکول، کا لج یا کوئی بھی تعلیمی ادارہ نہیں دیکھا تھا وہ لو گ کا غذات پڑھ کر کا غذ پر نئی پا لیسی لکھتے تھے پا کستان کے زمینی حقا ئق سے ان کا غذی پا لیسیوں کا تعلق نہیں ہو تا تھا کسی بھی پا لیسی میں پرائمری یا ہا ئی سکول میں پڑھا نے، امتحا ن لینے اور سرٹیفیکیٹ جا ری کر نے والے کسی استاد کو اعتما د میں نہیں لیا گیا، کبھی کسی تعلیمی ادارے میں جھا نک کر نہیں دیکھا گیا کہ گذشتہ یا جا ری تعلیمی پا لیسی کا کیا حشر ہوا ہے؟ کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ تعلیمی پا لیسی پر عمل در آمد کرنے والے آفیسروں کے پا س کتنے اختیار ات ہیں؟ کبھی اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ قومی سلیبس کا نصا بی کتا بوں سے کیا تعلق ہے؟ اور کبھی یہ نہیں سو چا گیا کہ امتحا ن لینے والے اداروں اور سند جا ری کرنے والے اداروں کا قومی تعلیمی پا لیسی یا قومی تعلیمی نصاب سے کتنا ربط ہے؟ جبکہ گیار ہویں تعلیمی پا لیسی بنا نے کا عمل سر پر آ پہنچا ہے ہمارے ارباب اختیار پھر غیر متعلقہ لو گوں کو ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بٹھا کر ہوا میں تیر ما رنے کی تیاری کرینگے جا ری تعلیمی پا لیسی کی تھوڑی بہت مر مت کر کے ایک نئی کا غذی پا لیسی بنا کر غیر متعلقہ لو گوں کے ذریعے اس کو نا فذ کر نے کی نا کا م کو شش کرینگے مین سٹریم ایجو کیشن یا قومی دھا رے کی تعلیم میں کئی نقا ئص ہیں مثلاً اسلا میات کے چار پر چے پا س کرنے والا اسلا می تعلیمات کے الف بے سے واقف نہیں ہوتا، انگریزی کا بھا ری بھر کم پر چہ پا س کرنے والا درست انگریزی میں چار سطریں نہیں لکھ سکتا سائنس کے تین اہم پر چوں کو پا س کرنے والا پا نی کا فارمولا نہیں بتا سکتا اور کمپیو ٹر کا پر چہ پا س کرنے والا کی بورڈ اور ما ؤس میں فرق نہیں کر سکتا‘پنجاب میں بہا ولپور کی ریا ست اور خیبر پختونخوا میں سوات کی ریا ست کا تعلیمی نظام مثا لی نظا م کا در جہ رکھتا تھا دونوں ریا ستوں میں تعلیمی ادارے کا سر براہ خود مختار ہوتا تھا، تعلیمی نظام کو چلا نے والے نگران آفیسروں کے پا س پورے اختیارات ہوتے تھے ہر سال نچلی سطح پر مشاورت ہوتی تھی اور یہ مشا ورت سسٹم کو بہتر سے بہتر بنا نے میں مدد گار ثا بت ہو تی تھی 2025ء میں صورت حا ل یہ ہے کہ در جہ چہا رم میں بھی سفارشی لوگ آ جاتے ہیں جن کی باہر سے سفارش کی جاتی ہے‘اسا تذہ کی کا رکر دگی پر باز پر س کی جائے تواس میں بھی سفارشی  لوگ متحرک ہو جاتے ہیں امتحانی نظام کو چلا نے والا سفارشی ہوتا ہے چنا نچہ کمر ہ جما عت کے تدریسی عمل کا نہ امتحانی نظام سے تعلق ہے نہ قومی سلیبس کے ساتھ کوئی ربط ہے‘ اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں‘2025ء میں جو بڑا انقلا ب آیا ہے قومی تعلیمی پا لیسی بنا نے والوں کو اس انقلا ب کی اے بی سی کا پتہ نہیں 2025ء میں طلباء اور طا لبات کوزند گی کی بنیا دی مہا رتوں میں سر ٹیفیکیٹ اور ڈگری لینے کی ضرورت ہے‘ان کو لا ئف سکلز (Life Skills) کہا جا تا ہے، پہلی مہا رت بچے کی تخلیقی صلا حیت ہے، دوسری مہا رت قوت مشا ہدہ ہے، تیسری مہا رت تنقیدی زاویہ نگا ہ ہے اور چو تھی مہارت مشینی ذہا نت (Ai) سے کامل استفادہ ہے مذکورہ مہا رتوں کے بغیر کوئی سر ٹیفیکیٹ اور کوئی ڈگری کام نہیں آئیگی مذکورہ مہا رتوں کو حا صل کرنے کے لئے عملی زندگی سے عاری رٹہ سسٹم کاغذی تعلیم کو یکسر تبدیل کرکے دو بڑے اقدامات اٹھا نے ہونگے بارہ سال کی تعلیم میں 80فیصد طلبہ کو ٹیکنیکل ایجو کیشن کی سہو لیات دینی ہونگی جو 20 فیصد طلبہ یو نیور سٹیوں اور 16سالہ تعلیم کے دیگر اداروں کی طرف جا ئینگے ان کے لئے زند گی کی بنیا دی مہا رتوں پر مبنی نصاب اور نظا م تدریس متعین کیا جا نا ضروری ہو گا۔
نیز عملدر آمد کرنے والے اداروں کو اندرونی خو د مختاری دینی ہو گی پرائمری سکول اور ضلعی آفیسر تعلیم سے لے کر یو نیور سٹی کے وائس چانسلر تک کسی بھی ادارے کا سر براہ کسی غیر متعلقہ شخصیت کا سفارشی ہر گز نہیں ہونا چاہئے گیار ہویں تعلیمی پا لیسی ہر لحا ظ سے زمینی حقا ئق کے مطا بق ہونی چاہئے‘ تعلیم کے بنیا دی تصورات سے لیکر عملدرآمد کے ممکنا ت تک ہر کڑی کو دوسری کڑی سے مر بوط اور منظم کر نا چاہئے۔