پا کستان انوائرنمنٹ پرو ٹیکشن ایکٹ 1997ء کو عام فہم زبان میں چرا گاہوں کا قانون کہا جا تا ہے انگریزی میں مخفف کر کے اس قانون کو PEPA-97کہا جا تا ہے اس قانون کے تحت چاروں صوبوں میں خصو صی ٹر یبو نل قائم کئے گئے ہیں پنجا ب میں اس قانون پر سختی سے عمل کیا جا تا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں اس کا خاص خیا ل نہیں رکھا جا تا، تعلیمی اداروں میں بھی اس قانون سے آگا ہی کا کوئی اہتمام نہیں ہے سول سو سائٹی اور سما جی تنظیموں کی سطح پر بھی اس قانون کا احترام دیکھنے میں نہیں آتا، انسا نی حقوق اور عوامی مفاد کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی اس قانون کو طاق نسیان پررکھ دیا ہے چنا نچہ گرمیوں کا مو سم آتے ہی ڈیزل اور پٹرول جلا نے والی ہلکی اور بھا ری گاڑیوں کا رخ چراگاہوں کی طرف موڑ دیا جا تا ہے لا کھوں کی تعداد میں لو گوں کو شہر وں سے اٹھا کر چرا گاہوں میں ڈال دیا جا تا ہے گرمیوں کے تین چار مہینوں میں ہماری چرا گاہیں ٹنوں کے حساب سے جمع ہونے والے کچرے کا ڈھیر بن جا تی ہیں، سبزہ خشک ہوجاتا ہے چشموں اورجھیلوں کا پا نی آلودہ ہو جا تا ہے ہزاروں کی تعداد میں ما ل مویشی مختلف مہلک بیما ریوں کا شکار ہو کر مر جا تے ہیں پرندوں، چرندوں اور درندوں کی زند گی بھی خطرے سے دو چار ہو جاتی ہے نبا تات کی گو نا گوں انواع کا بھاری نقصان ہو تا ہے عوام سراپا احتجا ج بن جا تے ہیں لیکن حکومت کو کا نوں کا ن خبر نہیں ہو تی پنجا ب میں کوئی جشن، میلہ یا سپورٹس گا لا ہوتا ہے تو لا ہور، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی میں واقع کھیل کے میدانوں میں منعقد ہوتا ہے، مری، کلر کہا ریا چھا نگا مانگا میں جشن، میلہ یا سپورٹس گا لا منعقد ہونے کی کوئی خبر ذرائع ابلاغ میں نہیں آتی خیبر پختونخوا میں کھیلوں کے میدانوں کی کوئی کمی نہیں جگہ جگہ سٹیڈیم مو جو د ہیں کھیلوں اور تما شوں کا بنیا دی ڈھا نچہ دستیاب ہے مگر جب بھی لو گوں کو شغل میلہ لگا نا ہوتو شہروں کا سارا کچرا گاڑیوں پر لا د کر کا لام، ما لم جبہ، قاقلشٹ،شندور، جا ز بانڈہ، بروغل اور گوبور کا رخ کیا جاتا ہے اور چرا گاہوں کے قدرتی حسن کے ساتھ فطری ما حول کا ستیا ناس کر کے رکھ دیا جا تا ہے چترال بالا کے قاق لشٹ میں سبزہ کو اُگے ہوئے ایک ما ہ بھی پورا نہیں ہوا بکریوں کے ریوڑ اس سبزہ زار میں پہنچے ہی تھے کہ اوپر سے جشن منا نے کا حکم ہوا، لا کھوں سیاح ہزاروں گاڑیوں میں اس سبزہ زار پر پہنچ گئے، ایک ہفتے تک سبزہ زار کو پاؤں اور ٹائروں تلے روند کر مٹی کا ڈھیر بنا دیا سینکڑوں ٹن کچرا وہاں چھوڑ کر سب کچھ بر باد کر کے شہروں کو واپس ہوئے اگر کھیل تما شے اور شغل میلے کسی سٹیڈیم اور کھیل کے میدان میں ہوتے تو چرا گاہ کا فطری حسن بر باد نہ ہوتا، بے زبان اور بے ضرر جا نوروں کا چارہ تبا ہ نہ ہوتا کالام، شندور، بروغل اور گو بور میں قدرتی جھیلوں کا پا نی بھی جشن اور ٹور نامنٹ کی وجہ سے آلو دہ ہو کر آبی حیات کے لئے زہر قاتل بن جاتا ہے کچھ لو گ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ کھیل تما شے بھی انسانی فطرت کا حصہ ہیں، سیا حت بھی آمدنی کا ذریعہ ہے حا لانکہ کھیل تما شوں کے لئے کھیلوں کے میدان اور سٹیڈیم بنا ئے گئے ہیں، سیا حوں کے لئے بستیوں کے اندر گیسٹ ہاؤس، ہوٹل اور دیگر سہو لیات دی گئی ہیں ترقی کا درست مفہوم یہ ہے کہ قدرتی حسن اور فطرت کے منا ظر کو نقصان پہنچا ئے بغیر ترقی کا ہدف حا صل کیا جا ئے تو اس کو پائیدار ترقی (Sustainable develepment)کہا جا تا ہے، عوامی مفاد کے تحفظ کے لئے ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتا ہے جو دفعہ 144لگا کر چرا گا ہوں اور قدرتی سبزہ زاروں کے تحفظ کو یقینی بنا تا ہے، اس مقصد کے لئے خصوصی ٹر یبو نلز اور عام عدالتوں کو متحرک کر نے کے لئے ہر ضلع میں و کلا ء کا ایک پینل ہوتا ہے جس کو Probo bono lawyersکہا جا تا ہے قانون دانوں کا یہ پینل ایسے موا قع پر PEPA-97کے تحت عدالت سے حکم امتنا عی حا صل کر کے ما حولیات کی تبا ہی کو روکتا ہے خیبر پختونخوا کے پہا ڑی اضلا ع چترال، دیر، سوات اور کو ہستان میں ہر سال کھیل کے میدانوں کو ویران کر کے جشن کے لئے چرا گاہوں کا رخ کیا جا تا ہے جو قدرتی ما حول اور حسن فطرت کی آلود گی کا باعث بنتا ہے اس تباہ کن رجحا ن کی حو صلہ شکنی ہو نی چاہئے اور ما حولیاتی تحفظ کے قانون مجریہ 1997ء پر سختی کیساتھ عمل در آمد ہونا چاہئے۔
اشتہار
مقبول خبریں
تو سیع شہر
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
عرفان صاحب کی نئی کتاب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
مشرق وسطیٰ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
توسیع شہر
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
پہلگام کا سانحہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
پشاور کے بیٹے کا اعزاز
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چراگاہوں کا قانون
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی