پشاور کے شہر نے گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں فصیل سے با ہر تو سیع شہر کے کئی مرا حل دیکھے اور ہر مر حلے نے شہر کو نیا روپ دیدیا لاہور، ملتان اور دہلی جیسے قدیم شہروں میں فصیل شہر کے اندر ہرآبادی کو ”والڈ سٹی“ فصیل والے شہر کا نا م دیا جا تا ہے یورپ کا سفر کرنے والوں کو پتہ ہے کہ وہاں بھی فلو رنس کی طرح کئی قدیم شہروں میں فصیلیں ہوا کر تی تھیں در وازے ہوا کر تے تھے بعض شہروں میں دونوں کی نشا نیاں اب بھی ملتی ہیں فلورینس کی فصیل کا چھوٹا ساحصہ نظر آتا ہے دو دروازے بھی سلا مت ہیں لا ہور کی فصیل اور اس کے تاریخی دروازوں کی بحا لی کا کام گذشتہ 30سال سے یونیسکو (UNESCO) اور آغا خان ٹرسٹ برائے ثقا فت کے تعاون سے جا ری ہے شاہی حمام اور مسجد وزیر خان کی بحالی کا کام مکمل ہوا ہے پشاور کی فصیل جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کرنا پید ہو چکی ہے چند دروازے اب بھی مو جود ہیں گذشتہ دو سال میں قصہ خوانی بازار کی بحا لی اور تزئین وآرائش پر اچھا کام ہوا ہے فصیل شہر کے اندر قصہ خوانی کی طرح دلچسپ اور تاریخی نا موں سے مو سوم کئی تاریخی مقا ما ت حکومت اور شہریوں کی تو جہ کے متقا ضی ہیں تحصیل گور گٹھڑی، بازار کلاں، مو چی لڑہ، ریتی بازار، ڈھکی نعل بندی، بازار فیل بان، بازارِشتر بانان، بازار ٹین گران، بازرِ چڑیکوبان، بازار دالگراں، محلہ گلا ب خانہ، چوک شادی پیر جیسے بے شمار نا م ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی اپنی تایخ ہے، مگر وہ زما نہ گذر گیا اب زما نہ تو سیع شہر کا آگیا ہے آج بھا نہ ماڑی شہر کے وسط میں آگیا ہے شہر کی تو سیع نے بڈھ بیر تک اپنا دامن پھیلا یا ہوا ہے، آج آپ بھا نہ ماڑی کو شہر سے با ہر کے علا قوں میں شمار نہیں کر سکتے، پشاور شہر کی تو سیع کا پہلا مر حلہ صدر یا کنٹونمنٹ کی صورت میں 1870ء کے وسط میں شروع ہوا اس کے بعد 1950ء میں یونیور سٹی ٹاؤن اور شامی روڈ کے مر حلے آئے پھر 1970ء کے بعد حیات آباد کی داغ بیل ڈالی گئی، اس کے بعد 1990ء کی دہا ئی میں ریگی ٹاؤن شپ کا اعلا ن ہوا پھر اکیسویں صدی کی ابتداء میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھا رٹی آگئی اس کے بعد بحریہ ٹاؤن کا اعلا ن ہوتے ہی بڑے بڑے تنا زعات نے سر اٹھا یا، مگر چھوٹی اور درمیانہ درجے کی ہاؤسنگ سکیموں پر ان تنا زعات کا کوئی اثر نہیں ہوا چنا نچہ نو شہرہ روڈ، چارسدہ روڈ اور ورسک روڈ پر اچھی اچھی ہاؤسنگ سکیمیں بن گئیں اور توسیع جا ری رہی شہر کی تو سیع کے ساتھ انسانی ضروریات اور نئی بستیوں کے بنیا دی تقاضوں پر بھی کام ہوا، شہری سہو لیات کی فراہمی پر بھی کام ہوا، ان کاموں میں نجی شعبے نے اہم کر دار ادا کیا شہر کے تعلیمی اداروں میں نجی شعبے نے بڑھ چڑھ کر اپنا مثبت کر دار ادا کیا اس طرح طبی سہو لیات کی فراہمی میں بھی نجی شعبے کا کر دار قابل تحسین رہا، جہاں بجلی اور گیس سرکاری اداروں نے فراہم کی وہاں پبلک ٹرانسپورٹ نجی شعبے نے مہیا کی آج کا پشاور توسیع شہر کی وجہ سے حد نظر تک پھیل چکا ہے ڈرون کیمرے کی تصویر وں اور گوگل انجن کے نقشوں میں فصیل شہر کے اندر واقع ایک ہزار سال پرانے پشاور کو ڈھونڈ یں تو قلعہ بالا حصار کے مشرق میں شہر کا چھوٹا سا حصہ آب کو نظر آتا ہے اسے دیکھ کر آپ سوچنے لگتے ہیں کیا یہی وہ پشاور ہے جو سمر قند، بخا را، کا بل، تاشقند، کا شغر اور یارکند سے آنے والے تجارتی قافلوں کو اپنے دامن میں جگہ دیتا تھا آج بھی پشاور خطے کے شمال اور جنوب کے درمیان تجا رت میں مر کزی کردار ادا کر رہا ہے۔
مگر اس کا طرز الگ اور اسلوب جدا گانہ ہے آج پشاور کی خشک گودی وسطی اور جنو بی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لئے کھلی ہوئی ہے آج پشاور میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے اور جدید ہسپتال اپنی خد مات پیش کر تے ہیں اور یہ تو سیع شہر کی ایک خو بی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔