جو تنظیمیں کتابوں کے میلے منعقد کر تی ہیں اور جو اشا عتی ادارے ان میلوں میں سٹال لگا تے ہیں ان کی طرف سے شکا یت آتی ہے کہ لوگ کتا بوں سے دوستی نہیں کر تے مگر جو لو گ لائبریریوں میں کتا بیں تلا ش کر نے کے لئے جا تے ہیں ان کا تجربہ اس شکا یت سے قطعی طور پر مختلف ہے میں نے 50سال پہلے کی لائبریریاں بھی دیکھی ہیں گزشتہ چند سال کے اندر اسلام آباد‘ پشاور‘ تیمرگرہ‘چترال اور کو ہاٹ کی پبلک لائبریریوں میں کتب بینوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر مجھے بہت خو شی اور مسرت حا صل ہوئی ہے میرا مشا ہدہ یہ ہے کہ عوام کی قوت خرید میں کمی ضرور آئی ہے مگر کتا بوں سے دوستی پہلے کی نسبت آج کل بہت زیادہ ہے نصف صدی پہلے کا پشاور کتب خانوں کا شہر تھا مگر کتب بینوں کی اتنی بڑی تعداد لائبریریوں میں نظر نہیں آتی تھی ہشت نگری میں میونسپل کا ر پوریشن کی مشہور لائبریری تھی خیبر بازار کے سوئیکا ر نو سکوائیر میں مر کزی اردو بورڈ کی لائبریری ہوا کر تی تھی‘ صدر روڈ پر بینو لنٹ فنڈ کی عمارت میں پبلک لائبریری تھی‘ جنرل پوسٹ
آفس سے آگے جا کر بائیں ہاتھ پر نیشنل سنٹر کی لائبریری تھی‘ فوارہ چوک میں کنٹونمنٹ بورڈ کا کتب خانہ تھا ارباب روڈ پر سعید بک بینک سے ذرا آگے امریکن سنٹر کی لائبریری ہو تی تھی‘ مال روڈ پر سٹینڈرڈ چارٹر ڈ بینک کے قریب برٹش کونسل کی لائبریری تھی‘ سر سید روڈ پر خانہ فرہنگ ایران کی لائبریری آتی تھی‘افغان خا نہ جنگی سے پہلے تمام کتب خا نے عوام کیلئے کھلے ہوتے تھے پھر ایسا ہوا کہ تما م کتب خا نے بند ہوئے پرانی پبلک لائبریری گور نر ہاؤس کے سامنے عجا ئب گھر سے متصل اپنی نئی عما رت میں منتقل ہو گئی اگرچہ کتب خانوں کا بنیاد ی ڈھانچہ ختم ہوا تا ہم پشاور کے
عوام کی کتاب دوستی پہلے سے زیا دہ ہوگئی‘ مطالعہ کرنے والوں کی تعداد میں اضا فہ ہوا چند ما ہ پہلے پشاور کی پبلک لائبریری کے دورے پر محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ایڈیشنل سیکر ٹری سید مظہر علی شاہ آئے تو اپنی باری کے انتظار میں کھڑے شائقین کتب نے مطا لعہ گاہ کی تنگی اور کر سیوں کی کمی کا شکوہ کیا‘ گذشتہ ماہ ڈپٹی کمشنر عبد الاکرم نے کوہاٹ ڈویلپمنٹ اتھار ٹی میں قائم پبلک لائبریری کا دورہ کیا تو مطا لعہ گاہ کے باہر اپنی باری کے انتظار میں کھڑے شائقین کتب نے لائبریری میں تین شفٹ لگا کر رات 2بجے تک لائبریری کو کھلا رکھنے کا مطا لبہ کیا کہ اس طرح ان کی مشکلات کا ازالہ ہو جائیگا اور اپنی مطلوبہ متب کے حصول میں آسانی ہوگی ایک سہا نی صبح کو مجھے حیات آباد فیز 1 کی پبلک لائبریری میں جا نے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مطالعہ گاہ یعنی ریڈنگ روم کے با ہر درجنوں جو تے رکھے ہوئے ہیں جو تے اتار کر اندر گیا تو دائیں بائیں میزیں
شائقین کتب سے بھری ہوئی تھیں‘ اتنی خا مو شی تھی کہ سوئی گرے تو شور بر پا ہوجا ئے‘ میں نے الماریوں کا جا ئزہ لیکر مطلوبہ کتا بوں کی مو جود گی پر اطمینان کا سانس لیا اور لائبریری انچارج انور آفریدی کو اشارہ کیا تو مجھے با ہر لے گئے‘ لان میں جا کر میں نے مد عا بیان کیا تو انہوں نے کہا ابھی دونوں کتابیں آپ کو دے دیتا ہوں‘ میں نے کہا کر سیاں بھر جا نے کے بعد بہت سے شائقین فرش پر بیٹھ کر مطا لعہ کر رہے ہیں‘ انہوں نے کہا یہ دیکھو کئی شائقین کتب لان میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں‘ انہوں نے اپنی میز اور کر سی مجھے پیش کی میں نے دو دنوں تک ان کی نشست پر بیٹھ کر کام کیا خو شی اور مسرت کا مقام یہ ہے کہ کالجوں میں بی ایس پرو گرام اور یو نیور سٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کا کلچر آنے کے بعد تحقیق کی نئی روا یت آگئی ہے نو جوانوں کیساتھ ادھیڑ عمر کے اساتذہ اور پروفیشنلز نے بھی کتاب کی طرف رجوع کیا ہے ارباب بست و کشاد کا فرض ہے کہ شائقین کتب کی بڑھتی ہوئی تعداد کی مناسبت سے سہو لتوں میں اضا فے کی منصو بہ بندی کریں۔