پہلگام بھارتی مقبوضہ کشمیر کا سیا حتی مقام ہے آج کے اخبارات میں پہلگام کے افسوسنا ک سانحے کی دلخراش خبریں آئی ہیں جہاں دہشت گر دحملے میں 26سیا حوں کو نشا نہ بنا یا گیا‘ ابھی اس واقعے کی ابتدائی تحقیقات شروع نہیں ہوئی تھی بھا رتی حکومت نے تفتیش اور تحقیق کا انتظار کئے بغیر پا کستان پر الزام لگا یا اور پا کستان کے سفار تی عملے کو ملک چھوڑ نے کا حکم دیا‘ کسی بھی حکومت کے ایسے اقدام کو غیر ذمہ درانہ قرار دیا جا تا ہے جو ملک کسی واقعے کی تفتیش اور تحقیق کے بغیر پڑو سی ملک پر الزام لگا تا ہے وہ الزام پلٹ کر واپس الزام لگا نے والے کے گلے پڑ جا تا ہے‘پا کستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے پا کستان کسی بھی صورت میں علا قائی امن کو سبو تاژ کرنے والا قدم نہیں اٹھا تا‘ہر حال میں علا قے کے امن و استحکام کے لئے اپنی بساط بھر کو ششیں کر تا ہے بھا رت کی طرف سے الزام تراشی میں جلد بازی کا مظا ہرہ اُس وقت ہوتا ہے جب بھا رت کومعلوم ہو کہ دہشت گردی اندرونی عنا صر کی کارستانی ہے جس میں ریا ستی اداروں کا کر دار بھی ہو سکتا ہے اس کو چھپا نے کے لئے فوری طور پر رائے عامہ کی تو جہ پڑو سی ملک کی طرف متو جہ کرنے کے لئے جھوٹے الزامات کا سہا را لیا جا تا ہے اور یہ بھا رتی ڈپلو میسی کا آزمودہ حر بہ ہے جو بار بار استعمال ہوتا ہے جب 14فروری 2019ء کو پلوا مہ کا سانحہ رونما ہوا تب بھی بھارتی سرکار نے کسی تحقیق کے بغیر پا کستان پر الزام لگا یا جو جھو ٹا ثا بت ہوا‘ بھارت نے بالا کوٹ پر جوابی حملے کا ڈرامہ رچایا جس کا کوئی ثبوت نہیں ملا‘البتہ آزاد کشمیر میں بھارتی جنگی جہا ز کے پا ئلٹ کو شہریوں نے گرفتار کر کے حکا م کے حوالے کیا پائلٹ کا نا م ابھے نندن تھا حکومت نے خیر سگا لی کے جذبے کے تحت گرفتار پائلٹ کو بھا رتی حکام کے حوالے کر کے ذمہ داری کا ثبوت دیا جس کو پوری دنیا میں سراہا گیا‘ اخبارات نے اس کو باجوہ ڈاکٹرائن کی نما یاں کا میا بی قرار دیا‘جنرل باجوہ اس طرح کی خا موش ڈپلو میسی کے لئے شہر ت رکھتے تھے اگر فلیش بیک کر کے بھا رت کی چانکیہ تھیو ری کا جا ئزہ لیا جا ئے تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے ہر موڑ پر بھارت نے پا کستان کے خلا ف اس طرح کے داؤ باربار استعمال کئے اس لئے یہ نئی بات نہیں 1964ء کے صدارتی انتخا بات محترمہ فاطمہ جناح کے خلا ف جیتنے کے بعد پا کستان کی حکومت غیر مقبول ہو گئی تھی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا تے ہوئے بھارتی کا نگریس سر کار نے پا کستان پر جنگ مسلط کرنے کے لئے گنگا نا می جہا ز کے اغوا کا ڈرامہ رچا یا اور پا کستان کے خلا ف جا رحیت کا ارتکاب کیا‘ بھارت کو یہ زعم تھا کہ پا کستانی قوم منتشر ہو چکی ہے‘ تما م بڑی پارٹیاں حزب اختلا ف میں ہیں‘ یہ پارٹیاں حکومت کا ساتھ نہیں دینگی مگر اُس وقت بھارت کی امیدوں پر پا نی پھیر دیا گیا جب پوری قوم اپنے اختلا فات کو پس پُشت ڈال کر پا ک فو ج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے میدان میں آگئی‘ انتخا بات کی تلخیوں کو سب نے بھلا دیا مسلکی اختلا فات سے با لا تر ہو کر پوری قوم دشمن کے خلاف مور چہ زن ہوئی اور بھارت کو منہ کی کھا نی پڑی، اب بھی بھارت کی حکومت اور بھا رتیہ جنتا پارٹی کو یہ غلط فہمی ہے کہ پا کستانی سیا ستدانوں میں اتفاق و اتحا د کا فقدان ہے‘ اس کا فائدہ اٹھا کر ملک کو عدم استحکام سے دو چا رکیا جا سکتا ہے لیکن دشمن کی یہ غلط فہمی بہت جلد دور ہو جائے گی جب تما م اختلا فات کو بھلا کر پا کستانی قوم ما ضی کی طرح سیسہ پلا ئی ہوئی دیوار بن کر دشمن کو منہ توڑ جوا ب دے گی”با طل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم ۔سو بار کر چکا ہے تو امتحا ں ہمارا“پہلگام کا افسوس ناک سانحہ پا کستان کے خلا ف گہر ی سازش ہے‘پا ک فو ج کو اس سازش کے خلا ف وہی حکمت عملی اختیار کر نی چاہئے جو حکمت عملی دسمبر 2014ء میں اے پی ایس حملے کے وقت اختیار کی گئی تھی‘ تما م سیا سی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر دشمن کو مو ثر جواب دیا گیا تھا‘ اب بھی اُسی انداز میں دشمن کو جواب دینا چاہئے‘ 1987ء میں جب بھا رتی جنگی مشق براس ٹیکس (Brasstacks) کے مقا بلے میں پا کستان نے ضر ب مومن کے نا م سے اپنی فو جیں سرحد پر متعین کیں تو جنرل ضیا ء الحق نے بھا رتی قیا دت کو صاف لفظوں میں بتا یا کہ ہمارے پا س وہ صلاحیت ہے جو بھارت کو ملیامیٹ کر دیگی۔
اس کے بعد مسلمان ختم نہیں ہونگے جبکہ دنیا میں ہندو کوئی نہیں رہے گا‘جنرل ضیا نے آنکھ کے ساتھ انگشت شہادت کے اشارے کو ملا کر کہا دوبارہ نوٹ کرو ”ہندو ایک بھی زندہ نہیں بچے گا“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔