آل پارٹیز کا نفرنس

بلو چستان میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد حملے کے بعد حکومت اور حزب اختلا ف دونوں نے آل پارٹیز کا نفرنس بلا کر ملکی حالات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی تجویز دی تھی اس تجویز پر عمل درآمد سے پہلے پشاور ارمڑ کی مسجد کا دلخراش واقعہ پیش آیا جس میں مفتی منیر شا کر شہید ہوئے‘ا کا دکا دوسرے واقعات بھی اخبارات میں رپورٹ ہوئے، ایسے حالات میں آل پارٹیز کا نفرنس کی ضرورت پہلے سے بڑھ کر محسوس کی جا رہی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت اور اپو زیشن کی طرف سے ایک دوسرے کے خلا ف بے جا الزا مات اور جوا بی الزا ما ت میں کمی نہیں آئی دونوں طرف سے کئی تو پچی میدان میں مو جود ہیں اور توپوں کی گو لہ باری کم ہونے کے آثار ر دکھا ئی نہیں دیتے آل پا رٹیز کا نفرنس کو ما ضی میں راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس کہا جا تا تھا، تاریخ میں کئی اہم مسائل اس طرح کے مشاورتی اجلا سوں میں حل ہو چکے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ مشاورتی اجلا س سے پہلے ساز گار ماحول پیدا کیا جا ئے  رویوں میں نرمی لائی جائے‘ سیا سی تلخیوں کو ختم کر کے بات چیت کے لئے با ہمی اعتما د کی فضا پیدا کی جا ئے اور ہم ایسے موڑ پر کھڑے ہیں کہ اعتما د سازی میں مزید دیر نہیں ہونی چاہئے جتنی دیر ہو گی اتنا ہی نقصان ہو گا نا کام معا شرہ اور نا کام ریا ست کے مو ضوع پر عالمی سطح کے دانشور وں کا حوالہ دینا عین منا سب معلوم ہوتا ہے روسی مصنف انتون چیخوف (1860-1904)سے پو چھا گیا کہ نا کام معا شرے کی نشا نیاں کیا ہوتی ہیں؟ انہوں نے انگلیوں پر گن کر چا ر نشانیاں بتائیں قابلیت کی جگہ بد معا شی لے لیگی، کسی شعبے کے قابل لو گوں کو متنا زعہ بنا یا جا ئے گا، اہم مسائل کو چھوڑ کر معمو لی باتوں پر مبا حثے ہو نگے معا شرے کے اختیا رات جا ہل لو گوں کو دیئے جا ئینگے جہاں یہ حا لات دیکھو تو سمجھو کہ یہ نا کا م معا شرہ ہے ابن خلدون نے بھی مقدمہ تاریخ میں انہی خا میوں کا ذکر کیا ہے، دنیا میں نا کام ریا ستوں کے حوالے سے بہت سارا کام ہوا ہے سمو ئیل پی ہنٹگٹن کی رائے بھی اس سے ملتی جلتی ہے، 2012ء میں ڈیرن ایسی مو گلو اور جمیز اے رابن سن کی کتاب وائی نیشنز فیل؟ منظر عام پر آئی تھی دو محققین نے مل کر امریکہ، چین، روس، افریقی مما لک، عرب مما لک اور جنو بی ایشیا کے مما لک میں ریا ستوں کی نا کامی اور کامیا بی کا جا ئزہ لیا ہے اور کئی مثا لیں دی ہیں ایک مثال چینی تاریخ میں چار کے ٹو لے کا خا تمہ ہے چینی انقلا ب کے با نی ما ؤزے تنگ کی بیوی جیان چن نے تین کمیو نسٹ لیڈروں کو ساتھ ملا کر اپنا گروپ بنا یا تھا اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ماؤ زے تنگ کی بیوی تھی اور بہت چہیتی تھی اسلئے ملک کو چلا نے کا حق اسے حا صل ہے، ہوا گوفنگ نے ماؤ زے تنگ کی عزت کو آڑے آنے نہیں دیا‘چار کے ٹو لے کو گرفتار کر کے کڑی سزا ئیں دیں‘دینگ زیاؤ پنگ کو اختیارات دے دیئے جس نے عوامی جمہوریہ چین کو چیئر مین ماؤ کے تصور کے عین مطا بق ترقی کے راستے پر ڈال دیا ور نہ چار کا ٹو لہ چین کا بیڑہ غر ق کر دیتا اور چین کو میا نمر، کا نگو یا روانڈا بنا کر رکھ دیتا، کتاب میں نا کام ریا ست کی جو نشا نیاں بیان کی گئی ہیں ان کا خلا صہ مختلف نکا ت پر مشتمل ہے‘پہلا نکتہ یہ ہے کہ ترقی کے موا قع پر سفا رشی لو گوں کا قبضہ ہو گا، وسائل کی تقسیم میں نا انصافی عام ہو گی حکومت کے ادارے آپس میں دست و گریباں ہونگے کوئی بھی سرکاری ادارہ معتبر نہیں رہے گا ریا ست کے اندر قیا دت نظر نہیں آئیگی عوام کو اس بات کا علم نہیں ہو گا کہ اختیارات کس کے پا س ہیں؟ دفاتر سے بازار اور منڈی تک کسی بھی جگہ قانون کی عملداری نظر نہیں آئیگی، جب یہ حا لات پیدا ہو جائیں تو جا ن لو کہ ریا ست نا کام ہونے والی ہے مو جودہ حالات میں وطن عزیز پا کستان کو نا کام ریا ست ہونے کے طعنے اور انجام سے بچا نے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس جیسے ہمہ گیر پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے اور اس مقصد کیلئے توپ چیوں کو الگ کر کے تو پوں کی گو لہ باری روکنے کی تد بیر کر نی ہو گی نیز یہ بھی ضروری ہے کہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھے جا ئیں 1971ء کے دس مہینے اس لحا ظ سے بھیا نک ثا بت ہوئے کہ تصویر کا دوسرا رخ دکھا نے پر پا بندی تھی‘ 16دسمبر 1971ء گذر گیا تو تصویر کا دوسرا رخ سامنے آیا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا جہاں سے بھی آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز آئی ہے بہت اچھی تجویز ہے اگر سنجیدگی کا مظا ہرہ کر کے اس مشاورتی عمل کو کامیاب کیا گیا تو اس کے مثبت نتا ئج بر آمد ہونگے۔