زبانیں خطرے کی زد میں ہو تی ہیں عالمی سطح پر ما ہرین نے سات ہزار زبانوں کی فہرست مرتب کی ہے جس میں کئی زبانوں پر سرخ نشان لگا یا ہے سرخ نشان کا یہ مطلب ہے کہ ان زبانوں کو دنیا سے ختم یا معدوم ہونے کا خطرہ لا حق ہے‘ فنی لحاظ سے ان زبانوں کو معدومیت کے خطرے سے دو چار زبانوں کا نا م دیا جا تا ہے پا کستان میں بھی کئی زبانیں خطرے کی زد میں ہیں‘اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یو نیسکو (UNESCO)نے لسا نیات کے ما ہرین کے ذریعے کسی زبان کے خطرے سے دو چار ہونے کی 5علا متیں بیان کی ہیں پہلی علا مت یہ ہے کہ وہ سکولوں میں پڑ ھا ئی نہ جا تی ہو، دوسری علا مت یہ ہے کہ وہ ذرائع ابلا غ میں نہ آتی ہو، تیسری علا مت یہ ہے اس کا کوئی رسم الخط نہ ہو، چو تھی علا مت یہ ہے اس کے بو لنے والے گھر سے با ہر کوئی اور زبان بولتے ہوں اور پا نچویں علا مت یہ ہے کہ کسی زبان کے بولنے والے گھر میں بھی کوئی اور زبان بولتے ہوں، ان علا متوں کے بعد لو گ گیتوں اور کہا نیوں کو محفوظ کر نے کے تحقیقی اور سائنسی طریقوں کا ذکر آتا ہے پا کستان کے اندر بو لی جا نے والی 57ما دری زبانوں میں سے 18زبانوں کو خطرے سے دوچار قرار دیا گیا ہے اگرا ن کا لو ک ورثہ سائنسی طریقے سے محفوظ نہ کیا گیا تو معدومیت سے دوچار ہو جائینگی یو نیسکو کے ما ہرین نے اپنے سروے کے نتا ئج سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ پا کستان میں سیا سی لحا ظ سے طا قت ور گروہ جتنے بھی ہیں وہ سیا سی میدان میں کمزور یا اقلیتی گروہوں کو ما دری زبانوں کے تحفظ کا حق دینے سے انکار کر تے ہیں گویا ما دری زبانوں کو سیا سی انتقام کا نشا نہ بنا یا جا تا ہے اور یہ تشویشنا ک بات ہے، پا کستان کے علمی حلقوں میں یہ بات تشویش کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں 18زبانیں معدومیت کے خطرے کی زد میں ہیں ان میں سے 12زبانیں خیبر پختونخوا میں بو لی جا تی ہیں اس سلسلے میں یو نیسکو کی ریڈ بک (سرخ کتاب) کا تیسرا ایڈیشن 2010ء میں منظر عام پر آیا یہ وہ سال تھا جب خیبر پختونخوا کی مخلو ط حکومت کو صوبے کے بڑے بڑے دانشوروں کا تعاون حا صل تھا‘ڈاکٹر محمد اعظم اعظم محکمہ ثقا فت کے مشیر تھے، ڈاکٹر خا دم حسین، ڈاکٹر فضل رحیم، رحمت شاہ سائل اور دوسرے وسیع القلب، وسیع المشرب اور کشا دہ ظرف رکھنے والے لو گ تھِنک ٹینک کے طور حکومت کو اچھے مشورے دیتے تھے یو نیسکو کی رپورٹ آتے ہی پی پی پی اور اے این پی کی مخلو ط حکومت نے صوبے کی 5ما دری زبانوں کو اول اعلیٰ سے 12جما عتوں تک ذریعہ تعلیم اور نصاب کا حصہ بنا نے کے لئے اسمبلی سے 2011ء میں ایک جا مع ایکٹ پا س کیا اور اس قانون پر چار زاویوں سے بیک وقت کام شروع کیا‘ نصاب سازی ہوئی، اساتذہ کی تر بیت کے ما ڈیولز تیار ہوئے ما دری زبانوں کے اساتذہ کی بھر تی کے لئے بجٹ مختص کیا گیا اور تما م ما دری زبانوں کو ایک چھت کے نیچے نشرو اشاعت کے موا قع دینے کے لئے ٹا سک فورس کا قیا م عمل میں لا یا گیا اس عرصے میں با چہ خان مر کز اور گند ھا را ہند کو بورڈ نے حکومت کے ساتھ مل کر فعال کر دار ادا کیا، گندھا را ہند کو بورڈ کے ساتھ اشتراک سے 2015 ء میں گند ھا را ہند کو اکیڈ یمی قائم کی گئی جس کے لئے نصف سرما یہ رضا کا ر تنظیموں نے فراہم کیا اور میچنگ گرانٹ صو بائی حکو مت کی طرف سے فرا ہم کی گئی‘اکیڈیمی نے صوبے کی ما دری زبا نوں کو ایک چھت کے نیچے رسائل، جر ائد اور کتا بو ں کی اشاعت کے مسا وی موا قع فراہم کئے صوبے میں بولی جا نے والی ما دری زبا نوں کے ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں کو مل بیٹھنے کا ایک مو زوں پلیٹ فارم مہیا کیا‘اکیڈیمی کے اندر مادری زبانوں کے ادب کے ساتھ ساتھ ملکی ادب اور عالمی ادب کی کتا بوں کے لئے جدید لائبریری قائم کی گئی جس کے معیار کو عالمی ما ہرین نے بھی سرا ہا، مگر 2023ء میں صو بائی حکومت نے کسی جواز کے بغیر اپنا تعاون واپس لے لیا۔ گذشتہ دوسال سے گند ھا را ہند کو اکیڈیمی رضا کا ر تنظیموں کے تعاون سے کا م کر رہی‘ ہے دریں اثنا ء عالمی ما ہرین کی مشاورت سے ہند کو اورصوبے میں خطرے سے دو چار زبانوں کے تحفظ کے لئے پر اجیکٹ پر و پو زل (HELA) پیش کیا گیا ہے، ہند کو اینڈ اینڈینجر ڈ لینگویجز اکیڈیمی شراکت کی بنیا د پر اپنا مو جو دہ کام جا ری رکھے گی‘ خیبر پختونخوا کی صو بائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت اور بین الاقوامی اداروں کا تعاون بھی اس کو حا صل ہو گا، بقول علا مہ اقبال
سفینہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور نا تواں کا
ہزار مو جوں کی ہو کشا کش مگر یہ دریا سے پا رہو گا