مشرق وسطیٰ 

ایشیااور افریقہ کا نقشہ سامنے رکھا جائے تو 9مما لک کا ایک چھوٹا سا بلا ک نظر آتا ہے جسے مشرق وسطیٰ کا نا م دیا جاتا ہے‘اس میں اسرائیل، فلسطین، کویت، عراق، ایران، بحرین، اردن، لبنان اور سلطنت اومان شامل ہیں‘ ستم ظریفی یہ ہے کہ سعودی عرب، مصر، شام، قطر اور متحدہ عرب امارات اس بلا ک میں نہیں آتے۔خلا فت عثمانیہ کے زوال سے اب تک کم و بیش 100سال ہو گئے مشرق وسطیٰ مسلسل جنگ، آگ اور بد امنی کی لپیٹ میں ہے کبھی لبنان میں بد امنی، کبھی عراق ایران جنگ، کبھی کویت عراق تنا زعہ، کبھی اسرائیل فلسطین تنا زعہ اور کبھی لبنان اسرائیل جنگ، بظا ہر ایسا لگتا ہے کہ تیل کی دولت کو حا صل کرنے یا گیس کے ذخا ئر پر قبضہ کے لئے جنگیں لڑی جا رہی ہیں‘یہ با ت جزوی طور پر درست ہے عراق اور کویت کے درمیان اسی وجہ سے جنگ ہوئی تھی۔ خطے میں امریکہ کی دل چسپی کا سبب یہی ہے پہلی جنگ عظیم کے دوران 1917ء  میں بر طا نیہ کے وزیر خا ر جہ با لفور(Balfour) نے ایک اعلا میہ بر طا نوی حکومت کی طرف سے جا ری کیا‘اعلا میہ دو نکا ت پر مشتمل تھا پہلا نکتہ یہ تھا کہ بر طا نیہ فلسطین کی سر زمین پر یہو دیوں کے لئے ایک خو د مختار مملکت کے قیا م کی حما یت کر تا ہے‘ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ جنگ کے اختتام پر تر کوں کی خلا فت عثما نیہ ختم ہو جا ئیگی‘اس کی جگہ عر بوں کی چھوٹی چھو ٹی خود مختار ریا ستیں قائم ہو ں گی جن کو بر طا نیہ کا پورا تعاون حا صل ہو گا‘ گویا اس اعلا میہ کے دو مقا صد تھے مسلما نوں کی سر بر اہی تر کوں سے چھڑا ئی جا ئے‘تر کوں کی مضبوط خلا فت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے عربوں کی کمزور اور طفیلی ریا ستیں قائم کی جائیں، دوسرا مقصد یہ تھا کہ مسلما نوں کی طاقت کا خا تمہ کر کے فلسطین میں یہو دیوں کی مضبوط اور طا قتور حکو مت قائم کی جا ئے‘عثما نی خلا فت 1923ء  میں ختم ہوئی، اسرائیل کا قیام 1948ء میں ممکن ہوا کیوں کہ 1917ء سے 1948ء تک فلسطین کی عرب آبا دی کو بے دخل کر کے با ہر سے یہو دیوں کو لا کر وہاں بسا نے کا کام 31سال تک جا ری رہا‘ اپنے وطن سے بے دخل ہونے والے فلسطینی اردن، لبنان، کویت اور دیگر ملکوں میں پنا ہ گزین ہوئے‘ لبنا ن میں بیروت کے قریب صابرہ اور شطیلہ کے دو مہا جر کیمپوں کو اْس وقت شہرت ملی جب امریکی جہا زوں نے 16دسمبر 1982ء کو بے تحا شا بمباری کر کے چار ہزار (4000)مسلمانوں کو شہید اور 10ہزار کو زخمی کر دیا‘گویا مشرق وسطیٰ میں برطا نیہ نے آگ لگا ئی تھی۔ امریکہ نے اْس آگ کو بھڑ کا یا ہے‘ اب مشرق وسطیٰ میں تنا زعہ کے چار فریق آمنے سامنے ہیں، پہلا فریق امریکہ ہے، دوسرا فریق بر طانیہ ہے‘تیسرا فریق روس ہے اور چو تھا فریق چین ہے، تر کیہ بھی ایک فریق بن سکتا تھا مگر اس نے پیچھے ہٹنا منا سب سمجھا، مصر اور اردن نے پسپائی اختیار کی‘لبنا ن کی حزب اللہ فلسطینی مہا جرین کی فعال تنظیم تھی، خا مو ش کر دی گئی‘ اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ عا لمی عدالت نے اسرائیل کو نا جائز ملک قرار دے دیا ہے‘ہمیں اسرائیل کے خلا ف عالمی عدالت کے فیصلے سے فرق نہیں پڑ تا‘ ہم پر جنگ امریکہ اور بر طا نیہ نے مسلط کی ہے‘امریکہ نے 200 ارب ڈالر اور بر طانیہ نے 100ارب پاؤنڈ حما س کے خلاف جنگ کے لئے مختص کیا ہے‘مسلما نوں کو کم از کم 500ارب ڈالر حما س کی مد د کے لئے فراہم کرنا چاہئیں۔