وطن عزیز پا کستان کے چھوٹے قصبوں اور بڑے شہروں میں 5سال سے لیکر 12سال تک کے بچے اور اس عمر کی بچیاں صبح سویرے کچرا چننے کے لئے با زاروں اور گلی کو چوں میں پھیل جا تی ہیں سارا دن یہ کا م کر تی ہیں اور شام سے پہلے ان کو کچرے کے ڈھیر پر خوراک تلا ش کر تے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے یہ غر بت کی علا مت بھی ہے، معا شرتی بے حسی کی نشا نی بھی ہے اور ماں جیسی ریا ست کی غفلت کا چلتا پھر تا اشتہار بھی ہے‘حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خلا فت میں اسلا می سلطنت کے کسی بھی قصبے یا محلے میں زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھااسلا می حکومت کے بیت المال نے ہر شہری کو خو دکفیل بتا دیا تھا اگر 650عیسوی میں غر بت کا خا تمہ ممکن تھا تو 2025ء میں اور بھی زیا دہ آسان ہو نا چاہئے اس مو ضو ع پر سما جی تر قی اور انسا نی فلا ح و بہبود کے ما ہرین کی دوآرا ء ہیں پہلی رائے یہ ہے کہ 5سال سے لیکر 12سال تک کی عمر کے بچوں اور بچیوں کو سکول میں ہو نا چاہئے ان کو سکول سے با ہر رکھنا یا اس عمر میں تعلیم سے محروم کرنا قانون کی نظر میں جر م ہے اس عمر کے بچوں اور بچیوں سے گھر کی کفا لت کے لئے مشقت لینا دوسرا بڑا جرم ہے جو قابل دست اندا زی پو لیس ہے ما ہرین کی دوسری رائے یہ ہے کہ غر بت بہت بڑی بیماری ہے، غریب ماں باپ خو د بھی مزدوری اور محنت کر تے ہیں دو وقت کی روٹی نہیں ملتی تو معصوم بچوں اور بچیوں سے بھی مشقت لیتے ہیں معا شیا ت کے ما ہرین کا خیال یہ ہے کہ روانڈا، افغا نستان اور پا کستان جیسے مما لک میں امیر اور غریب کے درمیان فا صلہ بہت زیا دہ ہو گیا ہے، خلیج بڑھ گئی ہے درمیانہ طبقہ اوپر جا نے کے بجا ئے غر بت کی لکیر سے نیچے آرہا ہے امیروں کے بچے اور بچیاں ایک ہی دن 4جو ڑے کپڑے بدلتے ہیں غریب کے گھر میں اولا د کو سال بھر میں ایک جو ڑا دھلا ہوا کپڑا پہنا نے کی سکت نہیں ہو تی پشاور کے درد مند شہریوں نے کچرا چننے والوں (Scavengers) کے مسئلے کا بغور جا ئزہ لیا ہے، ان کا مشا ہدہ یہ ہے کہ ان میں زیا دہ تر بچے بچیاں یتیم اور لا وارث ہیں، جن کے ماں باپ زندہ ہیں وہ یا تو بیمار ہیں یا معذور ہیں گھر سے با ہر نہیں نکل سکتے 2004ء میں صو بائی حکومت نے ایسے کنبوں کی کفا لت کے لئے للسائل وا لمحروم کے نا م سے سما جی بہبود کا اعلیٰ محکمہ قائم کیا تھا جو مفید کام کرتا تھا بعدمیں آنے والی حکومتوں نے اس کو بند کر دیا، 2014ء میں ”گلی کو چوں کے بچے“ سٹریٹ چلڈرن کے نا م سے ایک کا غذی منصو بہ شروع کیا گیا مگر کوئی کام نہیں ہوا دن کی روشنی دیکھنے سے پہلے یہ منصو بہ کا غذوں میں ہی دفن ہوا اس وقت حکومت کے کسی بھی دفتر میں بے سہا را خاندانوں کی فلا ح و بہبود کا کوئی پرو گرام نہیں ہے غیر سرکاری شعبے میں ایدھی ٹرسٹ کی طرح کوئی دوسرا ملک گیر نا م اب تک سامنے نہیں آیا یہ ہمارے سما جی اور معا شرتی نظام کی بڑی کمزوری ہے، الخدمت فاؤنڈیشن کی تاریخ میں آتا ہے قاضی حسین احمد نے کچرا چننے والے معصوم بچے کو گند گی کے ڈھیر سے گلے سڑے پھل کھا تے دیکھ کر یتیم اور لا وارث بچوں کے لئے آغوش کے نا م سے اقامتی اور تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا چترال میں مولانا عماد الدین نے اپنی ذاتی جا ئیداد پر حمیدہ ایجو کیشن اینڈ بورڈنگ اکیڈیمی قائم کرکے نادار بچوں کے لئے پنا ہ گاہ کی سہو لت فراہم کی ہے بڑے شہروں میں ایسی سہو لیات کی کمی ہے صو بائی دار الحکومت میں معصوم بچوں اور بچیوں کا کچرا چن کر کنبے کی کفا لت کرنا ماں جیسی ریا ست کے لئے با عث ندامت ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
کچرا چننے والے بچے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فقط تقریر کرتے ہیں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
وائٹ ہاؤس کی پالیسی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
اکوڑہ خٹک کا المناک سانحہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
پشاور کے کتب خانے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
جھنجوڑنے والی باتیں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی