اکوڑہ خٹک کا المناک سانحہ


ملک کی ممتاز دینی درس گاہ جا معہ حقا نیہ کی مسجد میں گزشتہ جمعہ کی نما ز کے وقت خو د کش دھما کہ ایک المنا ک سانحہ ہے اس کی باز گشت  مدتوں تک سنا ئی دیتی رہے گی‘ قیام پا کستان کے ایک سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا عبد الحق ؒ دیو بند سے اپنے گاؤں آئے ان کے ہمراہ چند طلباء بھی آئے تھے اپنے گاؤں میں گھر کے سامنے درخت کے نیچے مسند بچھا کر ان طلبا کو پڑ ھا نے کا سلسلہ شروع کیا‘اتفاق سے مولانا محمد قاسم نا نوتوی ؒ نے دار العلوم دیو بند کا آغا ز بھی اسی طرح درخت کے سایے میں کیا تھا اکوڑہ خٹک کا یہ بے سرو سامان مد رسہ اتنا معتبر ہوا کہ 77سال کے اندر پا کستان کے چار بڑے مدارس میں اس کا شمار ہونے لگا‘ اس کے فارغ التحصیل طلباء اور علما ء بڑے فخر سے حقانی کہلوا تے ہیں علا قے میں مدرسہ حقا نیہ کے بانی کا اتنا اثر و رسوخ تھا کہ 1970ء کے انتخا بات میں انہوں نے ووٹ نہیں ما نگے، مہم نہیں چلا ئی پھر بھی لو گوں نے بھاری اکثریت سے انہیں قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کیا ان کا بیٹا مولا نا سمیع الحق شہید بار بار ایوان بالا کے ممبر سنیٹر منتخب ہوئے، ان کے پو تے مولانا حامد الحق حقا نی کو 2002ء میں قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کیا گیا اکوڑہ خٹک کا المنا ک سانحہ اس لحا ظ سے بھی قوم کو دکھ اور رنج دے گیا ہے کہ اس سانحے میں مولانا حا مد الحق حقا نی نے جا م شہا دت نو ش کیا 10دیگر نما زی شہید اور کئی نما زی زخمی یا معذور ہوئے تفتیش کرنے والے ادا روں نے ابتدائی تفتیش میں ذکر کیا ہے کہ حملہ آور کا ہدف مولانا حا مد الحق حقا نی تھے اداروں نے یہ بھی کہا ہے کہ مسجد اور مد رسے کی سکیورٹی میں کوئی کمی نہیں تھی گارڈ بھی مو جود تھے پو لیس کے جوان بھی ڈیوٹی دے رہے تھے اس المنا ک سانحے کے تین پہلو قابل غور ہیں 1979ء سے اب تک 46سال میں 50سے زیا دہ جید اور نا مور علما ء کو ٹا رگٹ بنا کر شہید کیا گیا ہے کسی بڑے عالم دین کو شہید کر کے دشمن دو مقاصد حا صل کر تا ہے پہلا مقصد دینی قیا دت کو راستے سے ہٹا نا ہے دوسرا مقصد عالم دین کی شہا دت کے ذریعے ملک میں افرا تفری پھیلا نا ہے‘اس پہلو سے دیکھا جا ئے تو اکوڑہ خٹک کا سانحہ ملک اور قوم پر دشمن کا حملہ ہے اور یہ محض حملہ نہیں کاری ضرب بھی ہے، اس المنا ک واقعے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ افغان جہا د میں مدرسہ حقا نیہ اکوڑہ خٹک کے طلبا ء اور علماء کا نما یاں کر دار تھا افغا نستان کے علماء کی بھا ری اکثریت مد رسہ حقا نیہ سے سند لینے والوں کی ہے‘ مولانا سمیع الحق شہید کا نا م ملی یک جہتی کونسل اور دفا ع  کو نسل کے سر براہ کے طور پر میڈیا کی زینت بنتا رہا ان کی شہا دت بھی را ولپنڈی میں ٹا رگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہوئی‘گویا مدرسہ حقا نیہ عرصے سے دشمن کا ٹارگٹ ہے اس واقعے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ سکیورٹی اور کلو ز سر کٹ کیمروں کے ہوتے ہوئے حملہ آور کا مدرسے میں داخل ہو کر واردات کرنا   سوا لیہ نشان ہے اس  پہلو کو سامنے رکھ کر مستقبل کا لا ئحہ عمل طے کرنا چاہئے اس المنا ک سانحے کا آخری پہلو سب سے اہم ہے پا کستان میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے تفتیش میں سب سے بڑا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ خو د کش حملہ آور کے اعضا ء کے نمو نوں کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھیجا گیا ہے، ہمارے پا س ڈی این اے کا ڈیٹا بیس مو جو د نہیں اور ڈیٹا بیس کے بغیر ڈی این اے کا کوئی فائدہ نہیں یہ فضول، بیکار اور پُر فریب مشق ہے، پو لیس کے ا ندر تفتیش کو الگ کر کے سسٹم کو نقصان پہنچا یا گیا  اس لئے کوئی بھی دہشت گرد پا کستان میں دیدہ دلیری کے ساتھ واردات کرتا ہے اس کو یقین ہوتا ہے کہ پا کستان میں وہ پکڑا نہیں جائے گااکوڑہ خٹک کا تازہ ترین سانحہ قوم کے حکمرا نوں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ دہشت گردی کے خا تمہ کے لئے ملکی اداروں کی نئی صف بندی ہونی چاہئے۔