امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے ری پبلکن پارٹی کے اجلاس سے خطا ب کر تے ہوئے سفارتی آداب کو با لا ئے طا ق رکھ کر کھری کھری باتیں کی ہیں جن کو اگر جھنجھوڑ نے والی باتیں کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا ان کی پوری تقریر کا خلا صہ یہ ہے کہ نیو ورلڈ آر ڈر اخلا قی اقدار کا مجمو عہ نہیں تجا رتی اصولوں کا فار مولا ہے‘ زیا دہ سے زیا دہ منا فع کما نے کا کلیہ ہے، اسرائیل کو امریکہ جو امداد دیتا ہے وہ امریکی ٹیکس دہند گا ن کا ما ل نہیں عر ب مما لک سے آیا ہوا ما ل ہے ہم اپنے پلّے سے اسرائیل کو کچھ نہیں دیتے ہم امریکی چودھرا ہٹ کے سامنے کسی کو دیوار بننے نہیں دیتے‘ پرنٹ اور الیکٹر انک میڈیا میں امریکی صدر کی تقریر کو بڑی پذیرائی ملی ہے ہم پسند کریں یا نہ کریں امریکہ موجودہ زما نے کی ایک حقیقت ہے اس حقیقت سے آنکھیں چرانا منا سب نہیں بلکہ آنکھیں چار کرنا ہی وقت کا تقا ضا ہے‘بین الا قوامی تعلقات کے عمومی تقاضوں کے مطا بق کسی بھی ملک کا اعلیٰ عہدیدار کھل کر بات نہیں کرتا‘ سفارتی زبان میں اشاروں اور کنا یوں کے ذریعے اظہار خیال کر تا ہے‘صدر ٹرمپ نے اپنی عادت اور روا یت پر عمل کر تے ہوئے دل کی ہر بات کو زبان پر لا کر عام کر دیا ہے اُن کے نا قدین اس کا برا منا ئیں گے اور ان کے حا میوں کی نظر میں یہ باتیں آنے والے دنوں کے لئے حقیقت ثا بت ہونگی ہم لو گ ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھ کر امریکی صدر کی باتوں کو عرب قوموں کے لئے با لخصوص اور امت مسلمہ کے لئے با لعموم دعوت فکر اور دعوت بیداری قرار دیتے ہیں جو کچھ انہوں نے کہا وہ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو‘بات سچ ہے مگر بقول پروین شاکر ”بات ہے رسوائی کی“ صدر ٹرمپ کو ہم یہ کریڈٹ دے سکتے ہیں کہ اس نے جھوٹ بولنے کے بجا ئے سچ بولنے کو تر جیح دی‘ ان کی تقریر میں ایسی کوئی بات نہیں جو ہمارے لئے نئی ہو یا انکشاف کا در جہ رکھتی ہو‘جو کچھ ہوتا آیا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے وہی اس تقریر میں ہے‘فرق یہ ہے کہ پہلے اس کو راز میں رکھا جا تا تھا اب ان رازوں سے پر دہ اٹھا یا گیا جو ہمیں برا لگا، ہم اس کے عادی نہیں‘فریب کھا نے کے عادی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی پارٹی کے اجلا س میں 400سال کی تاریخ کے چیدہ چیدہ حوالے دئیے انہوں نے کہا کہ 1717ء میں ریا ست ہائے متحدہ امریکہ کا قیا م عمل میں آیا‘یہ نئے دور کا آغا ز تھا‘ 1778ء میں ڈالر کے نا م سے ہماری کرنسی وجود میں آئی جس کو دنیا پر حکمرانی کرنی تھی‘ اس کرنسی کو راستہ دینے کے لئے بڑے انقلا ب کی ضرورت تھی‘ چنا نچہ 1789ء میں انقلا ب فرانس نے دنیا کو زیرو زبر کر کے ڈالر کو راستہ دیا اس کے بعد دنیا پر دو چیزوں کی حکمرا نی قائم ہوئی‘ ایک کا نا م دولت ہے‘دوسری کا نا م ذرائع ابلا غ ہے‘ انیسویں صدی نے ہم کو مضبوط ہونے میں مدد فراہم کی، بیسویں صدی کی دو عالمی جنگوں نے ہمیں دنیا کی قیا دت کے منصب پر فائز کیا، اکیسویں صدی تک آنے سے پہلے ہم نے دنیا کو نیو ورلڈ آر ڈر کا تحفہ دیا‘اب دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل پیرا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
کچرا چننے والے بچے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فقط تقریر کرتے ہیں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
وائٹ ہاؤس کی پالیسی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
پشاور کے کتب خانے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
اکوڑہ خٹک کا المناک سانحہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
جھنجوڑنے والی باتیں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی