مجھے کچھ دن پہلے تک جن دو بڑی شخصیات کے برقی مراسلے مسلسل ملتے رہے ہیں ان میں سے ایک تو معروف شاعر، نقاد اور ایک بہت ہی باخبر عالم ستیہ پال آنند ہیں اور دوسرے حیران کن کہانی کار، معجز نگار کالم نگار، شاعر اور یاروں کے یار ار شاد صدیقی ہیں بد قسمتی سے پچھلے چند ماہ سے مجھے ستیہ پال آنند کا کوئی ای میل موصول نہیں ہوا وہ فیس بک پر بھی بہت فعال تھے اب وہاں بھی ان کی کوئی پوسٹ نہیں دیکھ رہا ہوں غالباً گزشتہ سال نومبر میں ان کی کوئی پوسٹ لگی تھی اس وقت وہ اپنی عمر کے94 ویں برس میں ہیں کچھ مہینے پہلے تک وہ روزنامہ آج کے ادبی صفحہ کے لئے تواتر سے اپنی تخلیقات مجھے بھیجتے رہے ہیں مگروہ سلسلہ بھی اب بوجوہ بند ہو چکا ہے‘ اسی طرح ارشاد صدیقی بھی گزشتہ چار پانچ ماہ سے منقار زیر پر تھے، ان کاآخری ای میل گزشتہ سال کے اواخر میں مجھے اس وقت ملا جب میں برطانیہ کے ادبی دورے پر تھا،وہ ای میل ہر چند میرے نام تھا لیکن حسب عادت انہوں نے اپنے کچھ مخصوص دوستوں کو بھی فارورڈ کیا ہواتھا جس میں یہی لکھا تھا کہ امریکا آنے کا بھی پروگرام ہے؟ میں نے جواب میں لکھا کہ نیو جرسی میں ڈاکٹر عامر بیگ کی کتاب،ہیوسٹن میں شاہ غزالی کی کتاب اور نیویارک میں ڈاکٹر محمد شفیق کی کتب کی رونمائی کی تقاریب کے لئے آؤں گا۔انہوں نے کہا میرا خیال ہے اب زیادہ سفرمت کریں اور مستقل امریکا شفٹ ہو جائیں میں نے کہا آؤں گا تو بات ہو گی، در اصل جب بھی میں امریکا میں ہو تا ہوں تو کئی ایک ہفتے میں دوست مہرباں عتیق صدیقی کا مہمان ہو تا ہوں وہ ارشادصدیقی کو بھی ’البقرقی‘ (نیو میکسیکو) سے بلا لیتے ہیں اور پھرمہینہ ڈیڑھ اور کبھی زیادہ، ہر شام ادبی نشست بپا ہوتی‘رات گئے تک ہونے والی اس گفتگو میں بڑا حوالہ پشاور کا ہو تا‘پرانے دوستوں کو یاد کیا جاتا،پشاوری پکوان اور قہوہ خانوں کی بات ہو تی لیکن گزشتہ سال حسب معمول عتیق صدیقی نے میرے لئے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا‘ نیویارک کے بہت دوستوں کے ساتھ ساتھ بنگ ہمٹن کے بھی کئی دوست بھی شریک تھے مگر ارشاد صدیقی نہیں آ سکے ایک تو ان کی طبیعت ناساز تھی دوسرے اپنی بیٹی کے کہنے پر
وہ ٹیکساس شفٹ ہو گئے تھے۔اس لئے جب میں دوست ِ عزیز شاہ غزالی کے شعری مجموعہ چراغ عشق کی تقریب رونمائی میں بطور صدر محفل شریک ہونے ہیوسٹن (ٹیکساس) جار رہا تھاتو خیال تھا کہ اگر مجھے کچھ وقت ملا تو میں ضرور ٹیکساس میں موجودارشاد صدیقی سے ملنے جاؤں گا لیکن وہاں یکے بعد دیگرے دو تین تقریبات کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا بلکہ جس دن شام کو میری فلائٹ تھی مجھے یاد ہے کہ اس دن بھی سہ پہر کو غضنفر ہاشمی نے ”ایک کتاب اورچائے‘ کے تحت احمد فراز پر گفتگو رکھی تھی وہ ہوسٹ تھے مجھے اور عارف امام کو بات کرنا تھی جہاں سے شاہ غزالی نے سیدھا ائیر پورٹ پہنچا یااور بمشکل فلائٹ پکڑی تھی پھر وہ ہیوسٹن سے خاصے فاصلہ پر تھے سو،ارشاد صدیقی سے ملاقات نہ ہو سکی، معروف معالج اور ایک دلبر شخصیت ڈاکٹر الف خا ن کے بہت ہی محبتی فرزند ڈاکٹر بہرام مہمند ڈینور میں ہوتے ہیں میری کچھ میڈیسن کے سلسلے میں وہ خود برخوردار افراز علی سیّدکے گھر تشریف لائے دیر تک گپ شپ چلتی رہی ارشاد صدیقی کا ذکر بھی چھڑ گیا کہنے لگے ابھی ہفتہ بھرپہلے ملاقات ہوئی ہے میں اور ڈاکٹر سید امجد حسین ان کے پاس گئے تھے،بہت مضمحل تھے مگر ان کا حوصلہ بہت بہتر تھا، مجھے بھی یک گونہ تشفی ہو ئی اور میں پھر واپس پاکستان آ گیا،اب کے پھر امریکا سے دعوت ملی تو سوچا کہ اب کے ضرور ملاقات ہو گی مگر گزشتہ کل ایک تقریب کے دوران مشتاق شبا ب نے مجھے اور نذیر تبسم کو یہ دل دکھانے والی خبر سنائی کہ ار شاد صدیقی بچھڑ گے ہیں۔ فیس بک کی اطلاعات کچھ زیادہ مستند نہیں ہوتیں اس لئے دوران تقریب احتیاطاً ذکر نہیں کیا لیکن گھر پہنچا تو دیکھا کہ اس خبر کے حوالے سے پہلے افراز
علی سیّد نے داؤد حسین عابد کا میسج فارورڈ کیا ہوا تھا،پھر ڈاکٹر سید امجد حسین کی کال آ گئی بہت دیر تک ہم ایک دوسرے کو پرسا دیتے رہے وہ خود بھی کیلی فورنیا میں تھے، ان کی کال ختم ہوئی تو دیکھا کہ عتیق صدیقی کا میسج آیا ہو ا تھا ان سے بات ہوئی تو دیر تک خود سے ان کی باتیں کر تا رہا پشاور کے بہت اچھے کہانی کار مشتاق احمد نے کچھ دن پہلے ان کا لکھا ہوا ایک تبصرہ بھی شئیر کیا جو مشتاق احمد مشتاق کے افسانوں پر ہے سوچا ممکنہ طور پر یہ ان کی آخری تحریر ہو سکتی ہے اس لئے اس تبصرہ کی چند سطریں شئیر کرنے کو جی چاہتاہے ”مشتاق احمد مشتاق کے افسانے سیدھے سادے انداز میں تحریر پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی تکنیک، انداز بیاں، ماحول اور کردار ہمارے معاشرے کے ہر تیسرے گھر کی کہانی ہے۔مشتاق احمد مشتاق کی ادبی نشوونما ”شہر قصہ خوانی “میں ہوئی۔ قصہ خوانی پشاور کا روایتی اور کلچر کا نمونہ ہے۔صدیوں پہلے شام کے وقت لوگ سرائے میں جمع ہوتے تھے‘ قصہ گو اپنی مسند سنبھالتا اور وقار کے ساتھ قصے کی ابتدا کرتا‘پھر یوں ہوا کہ لوگوں نے سوچا کہ شام کا کھانا بھی سرائے ہی میں کھایا جائے اور قصہ گوئی سے لطف اندوز بھی ہوتے رہیں‘ آس پاس کے لوگوں نے گھروں سے کھانا منگوانا شروع کردیا اور اس طرح طعام شب کی محفل بھی جم گئی پشاوری قہوے کے ساتھ ساتھ قصہ گو نے مسند سنبھالی اور قصہ گو ئی کی ابتداء ہوئی۔ جانے وہ انداز بیاں کیا رہا ہو گا لیکن ہم محسوس کرتے ہیں کہ اندازشاید آغا حشر کاشمیری کی تحریروں جیسا ہوگا مثلاً
پری ہے کہ جن ہے کہ سایہ ہے تو
پرستاں میں کیسے گھس آیا ہے تو“
اس تبصرہ میں بھی گزشتہ کل کے پشاور کے شب و روز سانس لیتے نظر‘آتے ہیں اور ان کی پشاور کے حوالے سے لکھی ہوئی نظم ”یادوں کی بارات“ جسے ڈاکٹر سید امجد حسین اور محمد ابراہیم ضیا ء سمیت کئی لوگ پڑھ کر ویڈیو کی صورت میں محفوظ کر چکے ہیں اور اس نظم میں کیا عمدہ یادیں یکجا کی گئی ہیں۔
اس دیس میں ہم تنہا بھی نہیں
ہر روز نسیم ِ صبح ِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے
اشکوں سے منور جاتی ہے