جانے بوجھے چپ رہتی ہے شب کے موڑ پہ کومل شام

 جب بھی میں جواں سال طلبہ کی مثبت سرگرمیوں کو دیکھتا ہوں تو بہت خوشی اور اطمینان ہوتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب اضطراب،بے چینی ،ابتری اور کسمپرسی نے چہروںکے تناو¿ میں شدت پیدا کر دی ہے، ہر شخص کی سوچ اس کی ذات تک محدود ہو گئی ہے اور لا قانونیت،جرائم مہنگائی اور بیروزگاری کے چاروں اور چھائے ہوئے گھٹاٹوپ اندھیرے نے عام آدمی کا جینا مشکل کر دیا ہے ‘ایسے میں ’ ہیومین کئیر فاو¿نڈیشن ‘ نام کی طالب علموں کی ایک فلاحی تنظیم اپنے حصے کا چراغ روشن کئے ہوئے ہے‘ محمد سلمان خان اور فواد حسین کی قیادت میں خیبر پختونخوا اور راولپنڈی میں مختلف یونیورسٹیز کی پانچ سو سے زیادہ طالبات اور طلبہ رضاکارانہ طور پر اپنے حصے کا کام کررہے ہیں یہ فاﺅنڈیشن چار شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے ان میں سے ایک تو نوجوانوں کے لئے آگہی کا پراجیکٹ ہے جس میں انہیںمنشیات ، خون کی بیماریوں ،بلڈ کینسر،دماغی امراض کے ساتھ ساتھ بہتر کیرئیر کے چناو¿ کے حوالے بھی آگاہ کیا جاتا ہے‘ دوسرا شعبہ صاف اور سر سبز پاکستان کے لئے کام کرناہے ‘جس میں شجر کاری اور ماحول کو شفا ف بنانا شامل ہے ،تیسرے پراجیکٹ میں وہ جواں سال طلبہ و طالبات کو مختلف پیشہ ورانہ سبجیکٹس میںمفت کورسز کراتے ہیںاوربیواو¿ں کو سلائی مشینیں مہیا کرتے ہیں جبکہ چوتھاپراجیکٹ اسلامی سرگرمیوں کے حوالے سے ہے جس میں سیرت النبیکانفرنس سمیت مختلف اسلامک موضوعات پر تقاریب اور فلاحی سرگرمیاں ہیں اور رمضان میں دستر خوان لگانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور یہ سارے کام سارے طلبہ ایک ٹیم کی طرح پر جوش طریقے سے اوررضا کارانہ طور پر انجام دیتے ہیں ، اسی فاو¿نڈیشن نے گزشتہ ہفتہ شہید بینظیر وومن یونیورسٹی میں د و روزہ لٹریری فیسٹیول کا انعقاد بھی کیا،اسی فیسٹیول میں ایک مشاعرہ کا ڈول بھی ڈالا گیا،یہ ایک کثیر اللسانی مشاعرہ تھا جسے بینظیر یونیورسٹی کی سینکڑوں باذوق اور پر جوش طالبات اور ان کی پروفیسرز کی شرکت نے جاندار،شاندار اور یادگا بنا دیا تھا۔مجھے یاد آیا کہ دو سال قبل احمد فراز کے حوالے سے ہونے والی تقریب میں بھی ایسا ہی جوش و خروش میں نے دیکھا تھاجب میں برخوردار طارق آفاق کے ساتھ تقریب کا حصہ تھاکاش اس طرح کی ادبی اور ثقافتی تقاریب ساری یونیورسٹیز میں کم وقفوں سے ہوتی رہیں‘میں ہیومن کئیر فاو¿نڈیشن کے فواد حسین سے جب شرکت کی حامی بھر رہا تھا تو اس وقت مجھے اندازہ نہ تھا کہ مجھے برطانیہ کے ادبی دورے پر روانہ ہونے کے لئے ٹکٹ مشاعرہ کے دو دن بعد کا ملے گا جس کی وجہ سے میری مصروفیات اچانک بڑھ گئی تھیں لیکن میں نے نوجوان طالب علم سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور مزے کی بات کہ اسی دن شام کو دوست ِ مہربان ڈاکٹر خالد مفتی نے بھی ایک الوداعی تقریب ہورائزن کے زیر اہتمام میرے،رفعت علی سید اور کرنل (ر) احمد ضیا بابر کے اعزاز میں رکھ لی ،کرنل بابر کو بھی کینیڈا جانا تھا جب کہ اسی رات ایک اور تقریب مجاہد بن سید نے بھی رکھی تھی مگر وہاں نہ پہنچ پایامیں حسرت موہانی تو ہوں نہیں کہ سفری بیگ ہمیشہ تیار پڑا ہواور اچانک روانہ ہوجاو¿ں خیر وہ ذمہ داری میری ہے بھی نہیں مگر لکھت پڑھت سے بھی تو فراغت ہو نا پھر تاخیر کے معاملے میں منیر نیازی سے بھی دو ہاتھ آگے ہوں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رات ساڑھے بارہ بجے ائیر پورٹ پہنچنا تھا اور میں گھر سے کوئی ڈیڑھ بجے کے قریب نکلا بھلا ہو برخوردار علی رضا،عارف علی شاہ اور سب سے بڑھ کر شاگرد رشید سید عدنان کا جس نے کیری آن بھی مجھے اٹھانے نہیں دیااور جہاز کی سیٹ تک پہنچا دیا مانو ہم آخری مسافر تھے کیونکہ فوراً بعد ہی کیپٹن کی استقبالیہ اناو¿نسمنٹ شروع ہو گئی تھی، جہاز کی پرواز جونہی ہموار ہوئی تو نماز فجر ادا کی ‘دوران پرواز نماز کی ادائیگی یک گونہ طمانیت کا باعث ہوتی ہے دوحہ قطر ائیر پورٹ پر مختصر قیام کے بعد جہاز نے لندن کے معروف ہیتھروائیر پورٹ کے لئے اڑان بھری اور یہ بھی ایک بہت اچھی پرواز تھی اور موسم بھی مہربان تھا اس لئے کم و بیش سات گھنٹے کی پرواز کے دوران ٹیک آف کے بعد اور لینڈنگ کے وقت سے پہلے ایک بار بھی سیٹ بیلٹ کے باندھنے کا نشان روشن نہیں ہوااور جہاز نے غیر محسوس انداز میں لندن کی جادوئی زمین کو چھو لیا، بہت بڑا اور اتنا ہی مصروف ہیتھرو ائیر پورٹ مسا فروں سے بھرا ہوا تھا،ایک مشکل مرحلہ امیگریشن کا ہو تا ہے جو امریکہ کے ائیر پورٹ پر تو مشکل ہی نہیں جان لیوا بھی ہو تا ہے شاید اسی لئے ویزہ فارم پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ ” ویزہ لگنے کا مطلب امریکہ میں داخل ہونا نہیں ہے“ کیونکہ اصل ویزہ ائیر پورٹ پر چھان بین کے بعد ہی ملتا ہے اس لئے کئی بارمعروف سیاستدانوں سمیت بہت سے لوگوں کو امریکہ پہنچنے کے بعد ائیر پورٹ ہی سے واپس ان کے ملک بھیج دیا جاتا ہے، یہ قانون تو سارے ممالک میں ہے مگرامریکہ نے اسے کچھ زیادہ ہی سیریس لے رکھا ہے اس کے برعکس یو کے میں کوئی خاص کیس نہ ہو تو یہ مرحلہ انتہائی کم وقت اور دوستانہ ماحول میں طے ہو جاتا ہے، ہمیں بھی بمشکل کاو¿نٹر پر تین منٹ لگے اور ہم سامان ٹرالی میں رکھ کر باہر آ گئے جہاں ابتسام اور اشمان علی سید ہمیں لینے آئے ہوئے تھے، ہمیں لندن میں رکنا نہیں تھا اس لئے برمنگھم کی اور چل پڑے موسم میں خنکی نے پشاور کی گرمی بھلا دی تو چائے کی طلب ہوئی لند ن کے پاس ہی ” صلاحو“ کا خوبصورت ٹاوµن ہے جس کے بازارمیں معروف ” چائے والا “ کی چائے نے سفر کی ساری تھکن اتار دی ،رفعت علی سیّد کو چائے کی طلب بھی ہو رہی تھی کہ جہاز میں کھانا پینا تو بہت کلاس کا ہو تا ہے لیکن ان کی چائے بس گرم پانی ہی ہوتا ہے ،ہماری منزل دو گھنٹے کی ڈرائیو پر تھی پشاور کی باتوں اور یادوں میں پتہ ہی نہ چلا اور ہم شام سے بہت پہلے ہی برمنگھم کے شہر ِ دلربا میں داخل ہو گئے شام تو ویسے بھی یہاں بہت دیر سے چھاتی ہے یہاں کی زمین کی رونق کی وجہ سے شاید سورج کا دل غروب ہونے کو نہیں چاہتا ، رات نو بجے بھی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو تا ہے اور شام چپ چاپ کھڑی اسے تکتی رہتی ہے ، بدر واسطی یاد آگئے
 سورج کے جاتے ہی اپنے رنگ پہ آ جاتی ہے دنیا
 جانے بوجھے چپ رہتی ہے شب کے موڑ پہ کومل شام