ہائے جمالو کے امکانی آثار

میری لفاظی یا جملہ پردازی اگر چوتھے طبقے یعنی کلاس فور کیلئے سمجھنا مشکل ہو تو ممکن ہے لیکن ٹیچنگ سٹاف یعنی اساتذہ کیلئے اس کا سمجھنا بالکل بھی مشکل نہیں ہوگا‘ ہائے جمالو کے امکانی آثار اس لئے منڈلا رہے ہیں کہ خیر سے ایک بار پھر بجٹ کا موسم آن پہنچا ہے بلکہ روایت کے برعکس تعلیمی ایمرجنسی والے صوبے میں تو پیش بھی کیا گیا ہے‘ ہر چند کہ صوبائی بجٹ کا تنخواہ پنشن کا10فیصد اضافہ ملازمین نے اونٹ کے منہ یا ہاتھی کے منہ میں زیرہ کے مترادف یا مصداق قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے تاہم یہ ردعمل یا استرداد اس لئے معنی خیز نہیں لگتا کہ جب کسی چیز کی قیمت سودی قرضہ دینے والوں کی کسی شرط کو پورا کرتے ہوئے ٹیکسوں میں اضافے کے سبب بڑھ جاتی ہے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی طرف سے بیانات داغتے ہوئے اضافہ مسترد کیا جاتا ہے مگر اس قسم کے ردعمل کا ملک کی تاریخ میں آج تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے‘ الغرض ممکن ہے کہ وفاقی حکومت کے بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ قدرے زیادہ ہو‘ مگر پھر بھی یہ محض اعلان ہوگا‘مطلب اضافے کی ادائیگی کیلئے پورے ملک میں صرف جامعات کو اضافی گرانٹ فراہم نہیں ہوگی‘سال2023-24ء کے بجٹ میں 35 فیصد30 اور17.50 فیصد کا جو اضافہ تنخواہوں اور پنشن میں کہا گیا تھا‘باوجود اس کے کہ بشمول ایچ ای سی اور ایچ ای ڈی تمام ملک کے سرکاری ملازمین کو دیا گیا مگر یونیورسٹیاں تاحال محروم ہیں‘ یہی وجہ تھی کہ کم از کم پشاور یونیورسٹی کیمپس کے ملازمین نے پورے دو مہینے تالہ بندی کرتے ہوئے نعرے لگائے‘ دھرنے دیئے مگر کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا‘ اب حالت یہ ہے کہ یونیورسٹیوں نے اپنی جمع پونجی کے ساتھ ساتھ قرضے لیکر بجٹ والے اضافے کو تنخواہوں اور بعدازاں پنشن میں تو شامل کرلیا مگر گزشتہ ایک سال کے بقایا جات تاحال واجب الادا ہیں‘ اب اگر مالی سال
 2024-25ء بجٹ اضافہ بھی شامل ہو جائے تو یہ اضافہ 50فیصد تک پہنچ جائے گا‘مطلب ہر ملازم کی تنخواہ ایک کی بجائے ڈیڑھ ہو جائے گی اور معاملہ وہی محض اعلان والا ہوگا‘یعنی یونیورسٹیوں  کو اضافی گرانٹ نہیں ملے گی اور یوں ملازمین مہینہ ڈیڑھ نہایت بے چینی سے منتظر رہنے کے بعد بالآخر ہائے جمالو کی راہ اپناتے ہوئے سڑکوں پر بیٹھ جائیں گے‘ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مختلف وجوہات بالخصوص ناداری کے سبب سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد2کروڑ62 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے‘ ایسے میں وفاقی حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی کا جو عندیہ ظاہر کیا ہے اسے سن کر معاملہ فہم اور عاقبت اندیش لوگوں کو یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وفاقی تعلیمی ایمرجنسی بھی ایک صوبے کی گزشتہ ایمرجنسی کی طرح ثابت ہو جس کے سبب تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیمی ادارے کہیں کے بھی نہیں رہے‘تو بات ہو رہی تھی بجٹ والے اضافے سے محروم رہنے والے جامعات ملازمین کے امکانی دھرنوں اور ممکنہ تالہ بندی کی‘ میرے نزدیک تو غالباً ایسا ہی ہوگا کیونکہ جب جامعات کی مالی  حالت اس قدر دگرگوں ہو کہ گزشتہ اضافے کے سبب تنخواہوں اور پنشن کی مد میں ہر یونیورسٹی کروڑوں روپے مقروض ہو تو نئے اضافے کی ادائیگی کیسے اور کہاں سے کرے گی؟ صوبے کے بجٹ میں تعلیم کیلئے جو حصہ مختص کیا گیا ہے اس میں یہ واضح نہیں کہ اس میں سے یونیورسٹیوں یعنی تعلیم کو کتنے پیسے ملیں گے؟ جامعات ملازمین بالخصوص اساتذہ نے بارہا مطالبہ کیا کہ صوبے کی جامعات کیلئے 60 فیصد بجٹ مختص ہو جبکہ40 فیصد کا بندوبست یونیورسٹی خود کرے گی‘ ملک بھر کی جامعات کی فیڈریشن نے بھی اس مطالبے کی تاکید کرتے ہوئے ملکی تعلیمی بجٹ کو 5کھرب تک بڑھانے کا مطالبہ کیا مگر لگتا کچھ یوں ہے کہ گزشتہ کی طرح یہ مطالبہ بھی محض مطالبہ ہی رہے گا یعنی حکومت کی طرف سے کوئی عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آئے گا اور جب ایسا ہوگا تو پھر جامعات کا مالی طور پر یکسر مفلوج ہونا اور ملازمین کا سڑکوں پر آنا حتمی ہوگا۔