اندھیرا پھیلتے ہی ہر طرف سے ڈر نکل آئے 

 جب سے کمپیوٹر کا چلن عام ہوا ہے تو بہت کچھ انٹر نیٹ پر پڑھنے کو مل جاتا ہے میری نسل کے لوگوں نے اگر چہ کتاب سے دوستی ہی نہیں عشق بھی کیا ہے تاہم ”ای بکس“ سے استفادہ کرنے میں بھی کبھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کی ہے، شروع شروع میں توکتنے ہی ایسے سائٹس تھے جہاں بہت کچھ معیاری پڑھنے کو مل جاتا تھا، اب بھی ہیں لیکن گزشتہ ربع صدی میں ایک تو نیٹ پر بھیڑ بڑھ گئی ہے اور دوسرے سوشل میڈیا کی بہت سی کھڑکیاں کھل گئی ہیں اس لئے معیار پر سوال اٹھنے لگے ہیں لیکن تب سے اب تک کچھ معیاری سائٹس میں سے ایک ”بی بی سی اردو‘ ڈاٹ کام‘ کی سائیٹ بھی ہے جس پر ہمیشہ بہت عمدہ تحریریں ملتی ہیں کوئی کوئی تحریرتو دیر تک اپنی سحر میں رکھے رکھتی ہے غالباً دو دہائی قبل ایسی ہی ایک عمدہ تحریر ”سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے“ کے عنوان سے احمد فرازؔ کے بارے میں پڑھی تھی،یہ عارف وقار کی تحریر تھی بعد میں جب بھی اس سائٹ پر جاتا اور عارف وقار کا کوئی شگفتہ کالم نظر آ جاتا تو ضرور پڑھتا غالباًبہت پہلے ایک بار احمد فراز سے ان کا مکالمہ بھی نظر سے گزرا تھا اس لئے ایک اچھے لکھاری کے طور پر عارف وقار کا نام حافظہ میں محفوظ رہا جن کے بارے میں میں بس اتنا جانتا تھا کہ وہ لندن میں ہے اور بی بی سی سے جڑا ہوا ہے،خیر اب تو ایک عرصہ سے نہ میں بی بی سی اردو کی سائیٹ کی طرف گیا اور نہ ہی عارف وقار کی کوئی تحریر نظر سے گزری،لیکن گزشتہ روز لندن میں مقیم دوست عزیز اور ایک جواں فکر شاعر بیرسٹر شہباز خواجہ کا فون آ یا تو انہوں نے کہا کہ وہ ملنے برمنگھم آرہے ہیں اور اپنے ساتھ وہ لندن ہی سے شاعر دوست سلیم فگار کو بھی لائیں گے اور ڈربی سے عارف وقار کو بھی لیتے آئیں گے ان دوستوں سے ملاقات تو ہو گی میں نے کہا کہ سلیم فگار سے علی ارمان کی ”شام خورشید رضوی“ میں ملاقات ہوئی ہے بہت عمدہ شاعر اور اچھے دوست ہیں البتہ عارف وقار سے کبھی ملا تو نہیں لیکن میں نے انہیں بہت پڑھا ہے یہ تو واقعی بہت دلچسپ نشست ہو جائے گی،شہبازخواجہ ایک محبتی دوست ہیں اور چونکہ مہربان دوست حلیم قریشی کی وساطت سے تعارف ہوا ہے اس لئے بہت زیادہ محبت سے ملتے ہیں انہوں نے اس نشست کے لئے بھی بہت کشٹ کھینچا پہلے لندن کے دوسرے سرے سے سلیم فگار کو لیا پھر لندن سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ڈربی شہر سے عارف وقار کو لے کر گھنٹہ بھر کی دوری پر میرے پاس برمنگھم آئے،برمنگھم میں کابل دربار ریستوران میں پر تکلف ظہرانہ کے بعد ایک یاد گار نشست کا ڈول ڈالا گیا، عارف وقار کی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ ہے، وہ ہم تینوں کی گفتگو دلچسپی سے سن رہے تھے مگر خود کوئی تبصرہ نہیں کیا، ہماری گفتگوشعرو ادب ہی کے اطراف میں رہی، نئی شاعری پر بھی بات ہوئی، اگرچہ زیادہ تر گفتگو ساقی فاروقی کے حوالے سے ہوئی کیونکہ شہباز خواجہ اور سلیم فگار دونوں ساقی فاروقی کے بہت قریب رہے ہیں بلکہ سلیم فگار کے شعری مجموعہ میں ایک بہت خوبصورت نظم”جان محمد“ ساقی فاروقی کے نام شامل ہے ان کے علاوہ ہماری گفتگو میں ا حمد فراز سے لے کر فرحت عباس شاہ تک کا شعرزیر بحث رہا، اور اس حوالے سے بھی بات ہوئی بلکہ سب متفق تھے کہ ایک زمانے تک نئے شعر کے حوالے سے نوواردان ادب سمیت سب کے پیش نظر ایک ہی نام تھا اور وہ فرحت عباس شاہ کاتھا، اس دوران ایک آدھ بات عارف وقار نے بھی کی بلکہ ایک عمدہ پیروڈی بھی سنائی مگر زیادہ تر خاموش ہی رہے، پھرشہباز خواجہ نے مجھ سے پو چھا کہ آپ نے ٹی وی کے لئے ڈرامے بھی لکھے ہیں تو عارف وقار سے اس حوالے سے بات کریں، میں سمجھا شاید عارف وقار کو ڈرامہ سے بھی کوئی دلچسپی ہو گی میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں جس عارف وقار کو بی بی سی اردو سے وابستہ محض ایک عمدہ اور شگفتہ نثر نگار اور کالمسٹ سمجھ رہا ہوں وہ تو ماضی میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لاہور سٹوڈیو میں بطور پروڈیوسر بھی دھومیں مچا چکے ہیں، ان کا بے حد مقبول ڈرامہ ”دبئی چلو“ بھلا کون بھلا سکتا ہے اب معلوم ہوا کہ علی اعجاز کی پر فارمنس کے پیچھے عارف وقار کا ذہن رسا کام کر رہا تھا، اس سنٹر سے اردو اور پنجابی کے کتنے ہی مقبول ڈرامے ان کے کریڈٹ پر ہیں یہ تو میں جانتا تھا مگر یہ پہلی بار معلوم ہوا کہ بیشتر ڈرامے خود انہوں نے لکھے بھی ہیں اور ان پر نام کسی دوست کا دے دیا، در اصل پاکستان ٹیلی ویژن کی پالیسی یہ ہے کہ ان کے کسی اہلکار کی کوئی بھی تخلیق آن ائیر نہیں جا سکتی،اس لئے کراچی لاہور اور پشاور کے بہت سے شاعر پروڈیوسرزنے کبھی پی ٹی وی کے کسی مشاعرہ میں حصہ نہیں لیا یا پھر بہت ناگزیر ہوا تو اس کے لئے خصوصی اجازت کے مشکل مرحلہ سے گزرنا پڑا، انہوں نے یہ لطیفہ بھی سنایا کہ ان کی لکھی ہوئی ایک سیریل پر انہوں نے ایک دوست کا نام لکھا تھا وہ سیریل مقبول بھی ہوئی تو ایک بار کوئی اور پروڈیوسر ان کے پاس سیریل لکھوانے پہنچ گئے تو ظاہر ہے پھر یہی ہوا ہو گا کہ ”وہ ہنس دئیے وہ چپ رہے منظور تھا پردہ مرا“ میرے لئے یہ نشست واقعی ایک یادگار نشست تھی کیونکہ مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ میرا ممدوح بی بی سی اردو لندن کا لکھاری اور پاکستان ٹیلی ویژن لاہور کا رائٹر اورمایہ ناز پرڈیوسر عارف وقار ایک ہی شخصیت ہیں ٍ، بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ عارف وقار پاکستان کے ایک نامور صحافی،کالم نگار اور شاعر وقار انبالوی کے فرزند ہیں،اس نشست میں مجھے سلیم فگار نے اپنا شعری مجموعہ ”تغیر“ اور ’ستارہ سے کوئی شام‘ کا حال ہی میں شائع ہونے والا دوسرا ایڈیشن بھی دیا، برمنگھم کے آسمان پر اس دوران کئی ایک موسم آتے جاتے رہے، موسلا دھار بارش،ٹھٹھری ہو ئی دھوپ اور یخ بستہ ہوائیں مگر ہم بہت دیر تک ان سے بے نیاز ہو کر شعر و ادب،کالم اور ٹی وی ڈرامہ کی دنیا میں مگن رہے، کسی کا د ل بھی نہیں چاہتا تھا کہ یہ گفتگو کا تسلسل، تعطل کا شکار ہو مگر شہباز خواجہ کو ابھی چار گھنٹہ ڈرائیو کرکے  احباب کو ان کے گھروں تک بھی پہنچانا تھا،میری بھی خواہش تھی کہ اندھیرا چھانے سے قبل سب گھروں کو پہنچ جائیں ورنہ لندن کے پراسرار شہر کا اندھیرا سلیم فگار کے شعر میں ڈھل جائے گا۔
 کہیں آنکھیں، کہیں بازو، کہیں سے سر نکل آئے 
 اندھیرا پھیلتے ہی ہر طرف سے ڈر نکل آئے