کہہ نہیں سکتا کہ زندگی کچھ زیادہ مصروف ہو گئی ہے یا پھر یار لوگوں کی ترجیحا ت بدل گئی ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ اب مل بیٹھنے کے لئے کم کم ہی کسی کے پاس وقت بچا ہے اور تو اور اب تہوار بھی یونہی سے پھیکے پھیکے گزر جاتے ہیں‘عید میلے بھی سمٹ سمٹا کر ایک آدھ دن تک رہ گئے ہیں اور وہ بھی کہیں ہیں کہیں نہیں ہیں، پہلے پہل دیہات میں تو خوب رونق میلا لگا کرتا‘پھر محض ایک دو ہنڈولے والے گلی گلی پھرتے اور بچوں کو ایک سستی تفریح میسر آ جاتی یا پھر جن کے گھر کے صحن کشادہ ہوتے وہ عید کے لئے اس میں جھولے لگالیتے اور محلے اور رشتہ دار لڑکیوں بالیوں کوایک عمدہ تفریح میسر آ جاتی تب دلوں میں بھی خاصی کشادگی ہو تی تھی اب تو ”پرائیویسی“ ہمیں کھا گئی، البتہ چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف موسمی تہو اروں کے ساتھ ساتھ عید کے میلے بھی خوب خوب لگا کرتے،پشاور کے عید میلے بھی کھلے پارکوں کے ساتھ بازاروں میں لگتے‘مجھے گنج اور چوک یاد گار کے میلے یاد ہیں جو عید کے تین دن تک جاری رہتے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کہیں کھو گئے، میرے گاؤں اکوڑہ خٹک میں عید کا میلا عید گاہ کے باہر چھوٹے سے بازار کی صورت لگتا جس میں کھانے پینے اور کھلونوں کی دکانیں ہو تیں مگر عید کی نماز کے بعد اس بازار کی بساط بھی لپیٹ دی جاتی، البتہ ایک بڑا اور بہت ہی پر رونق اجتماع روحانی پیشوا پیر سید مہربان شاہ ؒکے عرس کے موقع پر جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں ہوتا جس کا سال بھر ہم انتظار کیا کرتے‘ اس میں ایک طرف دنیا بھر سے جیّدعلمائے کرام تشریف لاتے اور رات گئے تک حمد و نعت خوانی اور مواعظ حسنہ سے تشنگان ِ علم کو سیراب کرتے تو دوسری طرف جامعہ اسلامیہ کے پہلو میں ایک بہت بڑا بازار بھی لگتا جس میں گاؤں اورمضافات کے ساتھ ساتھ پشاور سے عرس کے لئے آئے ہوئے ارادت مند دکانداروں کی مختلف پکوانوں کی دکا نوں پر ایک ہنگامہ سا لگا رہتا،ایک چھوٹا سا ایک روزہ میلہ ہمارے بچپن میں ایک اور روحانی پیشوا شیخ اخوند دینؒ کے مزار کے احاطہ کے باہر بھی لگا کرتا تھا، مگر وہ بھی اب شاید ہی کسی کو یاد ہو‘اسی طرح گاؤں سے آٹھ دس کلو میٹرکے فاصلہ پر واقع شیخ رحمکار کاکا صاحبؒ کا عرس مبارک کم و بیش چار سوسال(382) سے جاری ہے‘ ہم گاؤں سے پیدل یا سائیکل پر جایا کرتے تھے ہفتہ بھر جاری رہنے والے اس عرس کی آخری شام دربار عالیہ پرچراغاں ہوتا اور اس دن کی رونق دیدنی ہوتی‘ جانے کہاں کہاں سے عقیدت مندامڈے چلے آتے‘ تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی، مگر اب دو ایک دہائیوں سے یہ میلہ بھی چراغاں کی شام تک سمٹ گیا ہے‘میں تو خیر اب بھی گاہے گاہے جاتا ہوں گزشتہ برس بھی گیا تھا‘ اس سال عرس پر تو نہیں جا سکا غالباً اس سال یہ عرس فروری کے مہینے کے آخری ہفتہ میں ہواتھاجب پشاور میں دوستی پشاور لٹریچر کا تیسرا گیارہ روزہ فیسٹیول چل رہا تھا البتہ اس کے بعد حاضری لگانے کا موقع مل گیا تھا، لیکن پھر کہنا پڑتا ہے کہ یا تو زندگی کی مصروفیات بڑھ گئی ہیں یا پھر ترجیحات بدل گئی ہیں‘پشاور کی حد تک یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ اب نہ تو تہواروں کی وہ سرگرمیاں باقی ہیں اور نہ ہی یار لوگوں کے پاس ادبی اور ثقافتی تقریبات کو سجانے کی فرصت ہے اور سج جائیں تو شرکت کا دماغ کسی کسی کے پاس ہی ہوتا ہے۔ابھی بہار کے موسم میں ”افسران بالا“ کے کہنے پر کلچر ڈیپارٹمنٹ نے انگڑائی لی اور کچھ عمدہ تقریبات دیکھنے کو ملیں لیکن اس چار دن کی چاندنی کے بعد پھر کچھ سجھائی نہیں دیتا‘ پاکستان سے باہر کی دنیا میں لوگوں کے پاس اس لئے وقت کم ہو تا ہے کیونکہ ان ممالک میں جاب آکسیجن کی طرح ناگزیر ہے‘اس لئے زندگی ایک مشینی سرگرمی بن کر رہ جاتی ہے، لیکن یو کے ہو یا یو ایس یہاں ہر ویک اینڈ پر کوئی نہ کوئی چھوٹ بڑی تقریب بپا ہو تی رہتی ہے‘نیو یارک کی طرح کے مصروف ترین شہر میں بھی شاید ہی کوئی ویک اینڈ خالی جاتا ہو‘ سیاسی،سماجی،ثقافتی یا پھر ادبی اکٹھ ہوتے رہتے ہیں‘یو کے کی حد تک سرما کے موسم میں کم کم لیکن گرما کے تین چار مہینوں میں اگر چہ گرمی میں وہ دم خم تو نہیں ہو تاکہ پاکستان کے بیشتر علاقوں کی طرح یار لوگوں کے مزاج پوچھنے لگے لیکن اس سیزن میں کم و بیش ہر ویک اینڈ پر کسی نہ کسی طور رونق میلہ کا اہتمام ہوتا رہتا ہے، میں نے اس بار برمنگھم میں عید سے ایک دن پہلے بازاروں میں ایسی چہل پہل اور رونق دیکھی کہ پشاور کا مینا بازار بھول گیا، چوڑیوں اور مہندی کی عارضی دکانوں پر عجب گہما گہمی دیکھی، عید کی نماز قرب وجوار کی بیسیوں مساجد میں ہوئی اور ہر مسجد میں تین تین اور چار چار بار نماز پڑھی گئی اور پشاور سے دوری کا قلق اس لئے بھی کم محسوس ہوا کہ برمنگھم شہر میں بھی کچھ علاقوں میں اتوار اور کچھ علاقوں میں پیر کی عید منائی گئی۔
ہم نے جو طرز ِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
عید کے دن برمنگھم سے لندن کے قریب کے ایک ٹاؤن لوٹن میں دوست عزیز آصف فضل کے گھرہم مدعو تھے جو ابتسام علی سّید کے دوست عدنان کے پھوپھا ہیں غنیمت ہے کہ ان کی عید تھی ہر چند کہ قربانی کے لئے دوسرا دن رکھا تھا، بہت ہی پرتکلف ظہرانہ کے بعد دونوں فیمیلز لوٹن کے روایتی ”عید میلہ“ کے لئے قریبی پارک پہنچیں تو عدنان بھی فواد اور سجاول افغانی کے ہمراہ آ گئے جن کو دیر تک یقین نہیں آرہا تھاکہ ہم یو کے میں ہیں زرق برق کپڑوں میں ملبوس بہت بڑی تعداد میں بچوں سے لے کر عمر رسیدہ خواتین و حضرات میلے میں شریک تھے، ایک شور ایک ہنگامہ تھا طرح طرح کے الیکٹرانک جھولوں اور بچوں کی تفریح کی دیگر سرگرمیوں نے پشاور میں ہونے والے جشن خیبر کی یاد دلا دی، اس میلہ کے لئے لوٹن کی کمیونٹی چندہ اکٹھا کرتی ہے آصف فضلؔ بتا رہے تھے پہلے پہل یہ سارے جھولے وغیرہ فری ہوتے تھے گزشتہ سال ایک پاؤنڈ اور اب کے سال دو پاؤنڈ ٹکٹ رکھا گیا تھا اس میلہ کو ایک مقامی ایف ایم ریڈیو کی انتظامیہ آرگنائز کرتی ہے ان کا ایک بڑا سٹیج بھی میلے کا حصہ تھا جہاں جواں سال بچے بچیاں اپنا ٹیلنٹ پیش کر رہی تھیں، ایک بچی نے ایسی مسحور کن لحن میں نعت پیش کی کہ آنکھوں میں بے ساختہ دھواں سا بھر گیا، بہت دنوں بعد کسی میلہ میں شرکت نے سرشار کر د یا یہ اور بات کہیں سے ابنؔ انشا کی سرگوشی بھی ہمزاد بن گئی تھی۔
جس جپسی کا ذکر ہے 4535
تم سے،دل کو اسی کی کھوج رہی
یوں تو ہمارے شہر میں اکثر میلا لگا نگاروں کا